ہے چُبھن مستقل قرار کے ساتھ
پھول ڈالی پہ جیسے خار کے ساتھ
صبح کا انتظار ہے لیکن
بے یقینی ہے اعتبار کے ساتھ
خواہشِ باغباں ہے یہ شاید
زرد رُت بھی رہے بہار کے ساتھ
میرے گھر میں بھی کہکشاں کی طرح
ربط قائم ہے انتشار کے ساتھ
پیڑ نعمت بدست و سرخم ہیں
ہے تفاخر بھی انکسار کے ساتھ