ہے گزارش میری ذاتِ کبریا کے سامنے
میں ملوں خود کو درِ صلّیِ علیٰ کے سامنے
میں جیوں تو سانس میری اُس نگر کی ہو رہین
میں مروں تو روضۂ خیرالوریٰ کے سامنے
جس نے ظلمت کو اُجالوں کی بشارت بخش دی
اِک دیا روشن رہا سرکش ہوا کے سامنے
جس کو تیرا دامنِ رحمت میسر آگیا
بے خطر آیا وہ ہر برق و بلا کے سامنے
میں پلک جھپکوں تو جا پہنچوں تری سرکار میں
عرض رکھ دی ہے محمد مصطفیٰ کے سامنے
حشر کا مجھ کو نہیں ہے خوف کوئی مرتضیٰؔ
میں اُٹھوں گا شافعِ روزِ جزا کے سامنے