ہے ہمیں ہجر کی بھٹی میں پگھلنا سب کچھ
کیمیا ہوں کہ مسِ خام ، غرض یہ بھی نہیں ہے
کوئی باقائدہ آغاز نہیں تھا کل بھی
کوئی باضابطہ انجام ، غرض یہ بھی نہیں ہے
کیوں چھپاتا ہے عبث اپنے بدن کے غنچے
تجھ سے ائے پیکرِ گلفام ، غرض یہ بھی نہیں ہے
ہم سے رکتی ہی نہیں سینہِ بِسمل میں صدا
کوئی آئے گا سرِ بام ، غرض یہ بھی نہیں ہے
فطرتاً کارِ محبت پہ ہیں پابند ، کہ ہم
کامراں ہوں کہ ہوں ناکام ، غرض یہ بھی نہیں ہے
خود کلامی ہی سہی شعر ، چلو ، دیدہ ورو
وہم ٹھہرے ہیں کہ الہام ، غرض یہ بھی نہیں ہے
ہم وہ درویشِ سخن ہے کہ سرِ بزمِ جہاں
داد پاتے ہیں کہ دشنام ، غرض یہ بھی نہیں ہے