اردوئے معلیٰ

 

ہے یہ میدانِ ثنا گر نہ پڑے منہ کے بل

فرسِ طبعِ رواں دیکھ سنبھل دیکھ سنبھل

 

ان کے اک ذکر کا اللہ رے یہ ردِ عمل

دل ہے مخمور مرا مست ہے مینائے غزل

 

ہے شہنشاہِ زمن ہادی اقوام و ملل

جاں سپارِ رہِ حق غازی میدانِ عمل

 

آخری ان کی رسالت ہے، یہ ہے بات اٹل

جو مسلمان ہے اس کو تو نہیں لیت و لعل

 

نعرۂ حق سے ترے گونج اٹھے دشت و جبل

منہ کے بل ٹوٹ گرے لات و منات اور ہبل

 

پرِ پروازِ تخیل بھی جہاں پر کہ ہے شل

شبِ اسرا ہے وہاں ذاتِ نبی افضل

 

کیجئے ذکر جو ان کا تو خدا ہو راضی

لیجئے نام جو ان کا تو کھلے دل کا کنول

 

اللہ اللہ یہ کیفیتِ شیریں سخنی

ان کی با توں میں گھلی جیسے ہو تاثیرِ عسل

 

مہ و خورشید سے نسبت نہیں ہرگز شایاں

یوں سمجھ لیجئے ادنیٰ سی ہے اک ضربِ مثل

 

بھیجتے ان پہ ہیں واللہ ملائک بھی درود

شان ان کی یہ ہے در بار گہ عزّ و جل

 

ان کی ہی شانِ عنایت کے طفیل آج نظرؔ

چولی دامن کے ہیں ساتھی مرے ایمان و عمل

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ