اردوئے معلیٰ

یادِ آقا میں آگئے آنسو

اپنی قسمت جگا گئے آنسو

 

ان کی مدحت کا اِک چراغ جلا

اور شدّت بڑھا گئے آنسو

 

تشنگی جب بڑھی حضوری کی

جامِ شفقت پلا گئے آنسو

 

تھا بہت دور وہ درِ عالی

پر یہ دوری مٹا گئے آنسو

 

نامِ سرکار ہی لبوں پہ رہا

باقی سب کچھ بھُلا گئے آنسو

 

اُن کے ابرِ کرم کا ذکر ہوا

ایک لمحے میں چھا گئے آنسو

 

لفظ کب لائقِ سلامی تھے

اصل رشتہ نبھا گئے آنسو

 

ذکرِ سرکار پر بہیں کہ رُکیں

کیسی مشکل میں آگئے آنسو

 

بزمِ سرکار میں چھلکنے لگے

اور مرا سر جھکا گئے آنسو

 

خود فریبی پہ گامزن تھا شکیلؔ

سیدھے رستے چلا گئے آنسو

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔