یادِ صحنِ حرم سنبھال کے رکھ
یعنی ان کا کرم سنبھال کے رکھ
اپنی آنکھوں کا نم سنبھال کے رکھ
خوفِ ملکِ عدم سنبھال کے رکھ
سب کو ملتا ہے یہ کہاں صاحب
ہجرِ طیبہ کا غم سنبھال کے رکھ
کافی ہے مجھ کوجامِ عشق نبی
اپنا تو جامِ جم سنبھال کے رکھ
دل کو ذکرِ نبی سے کر سر شار
اور مژگاں پہ نم سنبھال کے رکھ
میری جنت مدینہ ہے زاہد
اپنے خلد و ارم سنبھال کے رکھ
پار کر حزم سے صراطِ عشق
اپنا ہر اک قدم سنبھال کے رکھ
حشر کے روز کام آئے گی
حبِ شاہِ امم سنبھال کے رکھ
یہ بارگاہِ رسول ہے مظہرؔ
تو زبانِ قلم سنبھال کے رکھ