یارب وہ دن بھی آئے اک بار زندگی میں
جاکر پڑھوں میں نعتیں سرکار کی گلی میں
میرا خیال اس سے اک پل نہ جائے باہر
لذت ملی ہے ایسی نعتوں کی شاعری میں
گنجینۂ تلطف اس پر ہوا نچھاور
سرکار کو پکارا جس نے بھی بے کسی میں
اے عشقِ سرورِ دیں ہمراہ یوں ہی رہنا
ہر راہ طے کرونگا میں تیری رہبری میں
شہرِ شہِ امم کی جب خاک میں نے اوڑھی
سارا وجود میرا ڈوبا ہے روشنی میں
سرکارِ دو جہاں کی جب یاد آگئی ہے
گلزار کِھل اٹھے ہیں صحرائے زندگی میں
لشکر غم و الم کا نزدیک کیسے آئے
ذکرِ نبی ہے شامل میری ہر اک خوشی میں
روشن ہیں چاند تارے ان کی ہی خاکِ پا سے
موّاجیاں ہیں ان کی دنیا کی ہر ندی میں
جو ہٹ گیا تمہارے نقشِ قدم سے آقا
اب تک بھٹک رہا ہے وہ دشتِ گمرہی میں
عہدِ شہِ امم میں ہوتے تو فخر ہوتا
کیا کیجیے کہ آئے اکّیسویں صدی میں
آیا جو ہوش مجھ کو دیکھا کہ در پہ ان کے
سجدے میں جا چکا تھا سر میرا بے خودی میں
دیوانگی نبی کو سر نذر کر رہی ہے
تاریکیاں ہیں چھائی ایوانِ آگہی میں
سب کچھ تھا ساتھ لیکن اے نور ؔدل نہ پایا
پہلو جو اپنا دیکھا طیبہ سے واپسی میں