یار سب غمگسار کب ہوئے ہیں
سب شجر سایہ دار کب ہوئے ہیں
ہم ازل کے ہیں بے قرار مگر
اس قدر بے قرار کب ہوئے ہیں
آپ رہتے ہیں کہکشاؤں میں
آپ میں ہم شمار کب ہوئے ہیں
کیسے حالات کا بہانہ کریں
یہ بھلا سازگار کب ہوئے ہیں
کب کھلے ہیں خرد پہ آئینے
راز سب آشکار کب ہوئے ہیں
اب جنہیں یاد کر رہا ہوں میں
وہ مرے سوگوار کب ہوئے ہیں