یا محمد محمد میں کہتا رہا نور کے موتیوں کی لڑی بن گئی
آتیوں سے ملاتا رہا آیتیں پھر جو دیکھا تو نعتِ نبی بن گئی
کون ہے جو طلبگار جنت نہیں یہ بھی تسلیم جنت ہے باغِ حسین
حسنِ جنت کو جب سمیٹا گیا مصطفیٰ کے نگر کی گلی بن گئی
جب کیا تذکرہ حسن سرکار کا والضحیٰ پڑھ لیا والقمر کہہ دیا
آتیوں کی تلاوت بھی ہوتی رہی نعت بھی بن گئی بات بھی بن گئی
جب بھی آنسو گرے مرے سرکار کے سب کے سب ابرِ رحمت کے چھینٹے بنے
ہو گئی رات جب زلف لہرا گئی جب تبسم کیا چاندنی ہوگئی
سب سے صائم زمانے میں مجبور تھا سب سے بے کس تھا بے بس تھا مجبور تھا
میری حالت پہ ان کو رحم آگیا میری عظمت میری بے بسی بن گئی