اردوئے معلیٰ

یا محمد یا محمد میں کہتا رہا نور کے موتیوں کی لڑی بن گئی

آیتوں سے ملاتا رہا آیتیں پھر جو دیکھا تو نعت نبی بن گئی

 

کون ہے جو طلب گار جنت نہیں یہ بھی مانا کہ جنت ہے باغ حسیں

حسن جنت کو جب بھی سمیٹا گیا مصطفیٰ کے نگر کی گلی بن گئی

 

جتنے آنسو بہے میرے سرکار کے سب کے سب ابر رحمت کے چھینٹے بنے

ہو گئی رات جب زلف لہرا گئی جب تبسم کیا چاندنی بن گئی

 

جب ہوا تذکرہ میرے سرکار کا والضحیٰ کہہ دیا والقمر پڑھ لیا

آیتوں کی تلاوت بھی ہوتی رہی بات بھی بن گئی نعت بھی بن گئی

 

سب سے صائم زمانے میں کمزور تھا سب سے بیکس تھا بے بس تھا مجبور تھا

میری حالت پہ ان کو رحم آ گیا میری عظمت مری بے بسی بن گئی

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ