یہی دُعا کی ریاضت ، یہی عطا کے چراغ
فصیلِ شوق پہ روشن ہیں جو ثنا کے چراغ
حضور ! ملتی رہے مقتضائے شوق کی بھیک
عطا پذیر رہیں حرفِ اقتضا کے چراغ
اُنہی کا پر تَوِ تاباں ہیں مہر و ماہ و نجوم
فلک فروغ ہیں جو تیرے نقشِ پا کے چراغ
رہیں گے راہ نما عرصۂ حیات میں بھی
جلیں گے زیرِ لحد بھی تری ولا کے چراغ
فزوں ہیں قصرِ شہی کی نمودِ طلعت سے
ترے فقیر کی کُٹیا ، ترے گدا کے چراغ
ہوئے ہیں تا بہ ابد اہلِ دل کو راہ نما
نبی کے نقشِ قدم جو بنے حِرا کے چراغ
حضور یاب ہو مقصودؔ مدحتِ شہِ میں
بہ حرفِ نعت جلا عرضِ مدعا کے چراغ