یہی ہے آرزو ایسی کوئی تدبیر ہو جائے
مدینے کا سفر یا رب مری تقدیر ہو جائے
ہمیشہ حاضری ہوتی رہے آقا کی چوکھٹ پر
اشارہ آپ فرما دیں تو کیوں تاخیر ہو جائے
سمو لُوں اپنی آنکھوں میں اُجالا سبز گنبد کا
مری تو زندگی میں ہر طرف تنویر ہو جائے
بناؤں دل کے کاغذ پر میں نقشہ شہرِ طیبہ کا
ہمیشہ کے لئے محفوظ یہ تصویر ہو جائے
ثنا گوئی میں گزرے زندگی آقا کی نگری میں
بڑی ہی خوبصورت خواب کی تعبیر ہو جائے
شہِ والا یہ فرما دیں ،بہت ہی خوبصورت ہے
کوئی تو نعت ایسی ناز سے تحریر ہو جائے