یہ بھی موسم کی کوئی سازش نہ ہو
ابر ہو لیکن یہاں بارش نہ ہو
اس قدر بھی چاہنا کیا چاہنا
عشق شدت سے ہو اور خواہش نہ ہو
ایسی غربت کو خدا غارت کرے
پھول بھجوانے کی گنجائش نہ ہو
تم تو یوں ضد پر اتر آئے ہو آج
آخری خواہش ہو فرمائش نہ ہو
گل کو خوشبو سے اگر ناپا گیا
عمر بھر ممکن ہے پیمائش نہ ہو