یہ جو ذرّے نے چمک آپ سے لے رکھی ہے
پھُول نے اپنی مہک آپ سے لے رکھی ہے
اِس کی آواز فلک تا بہ فلک سنتا ہُوں
یہ جو مٹّی نے کھنک آپ سے لے رکھی ہے
آپ کے دم سے ہی قائم ہیں سبھی رنگِ زمیں
آسماں نے بھی دھنک آپ سے لے رکھی ہے
ورنہ ہو جاتے یہ برباد، اُجڑ جانے تھے
سب جہانوں نے کمک آپ سے لے رکھی ہے
مَیں کہ مخلوق پہ حیراں ہُوں یہاں کِس کِس نے
روزی نان و نمک آپ سے لے رکھی ہے