یہ جو پھولوں میں تازگی ہے ابھی
وہ مرے خواب دیکھتی ہے ابھی
اک تو معصوم سی وہ لڑکی ہے
اور محبت نئی نئی ہے ابھی
میں تو کب کا بھلا چکا اس کو
وہ مگر مجھ کو سوچتی ہے ابھی
کوئی دل میں پکارتا ہے مجھے
ایک آواز گونجتی ہے ابھی
ترا دریا اتر چکا لیکن
میری آنکھوں میں تشنگی ہے ابھی
اس گلی میں کوئی فسوں ہے یا
کوئی دیوار بولتی ہے ابھی
ضبط ٹوٹا نہیں مرا قیصرؔ
زندگی،موت سے جڑی ہے ابھی