اردوئے معلیٰ

یہ کون مجھ کو صلِّ علیٰ یاد آ گیا

یکتائیوں کے ساتھ خدا یاد آ گیا

 

غربت میں جب وطن کا مزا یاد آ گیا

لوگوں کا مجھ کو بختِ رسا یاد آ گیا

 

دل اپنا اس کا تیرِ جفا یاد آ گیا

بیٹھے بٹھائے ہائے یہ کیا یاد آ گیا

 

اس رات مجھ کو نیند نہ آئی تمام رات

جس رات خوابِ زلفِ دوتا یاد آ گیا

 

اس دورِ اضطراب میں سب کچھ غلط مگر

اتنا ہے سچ کہ سب کو خدا یاد آ گیا

 

بے اختیار آنکھ سے آنسو نکل پڑے

ماضی کا حال تا بہ کجا یاد آ گیا

 

رکھتا نظرؔ کہیں کا نہ مجھ کو جنونِ شوق

لیکن ثباتِ اہلِ وفا یاد آ گیا

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ