آخر دبوچ لی گئی تتلی جنون کی
اس خانماں خراب کو منطق نے جا لیا
محوِ خرامِ خوابِ ختن ، ڈھیر ہو گئے
مایوسیوں کے غول نے ان کو گرا لیا
ناممکنات ، ٹھونک کے خم، اٹھ کھڑی ہوئیں
امکان کے گمان نے اک نام کیا لیا
ہے تیز دھوپ ، موم کے کم بخت پیکرو
اس مہرباں نے زلف کا سایہ ہٹا لیا