اردوئے معلیٰ

Search

آخر غبارِ دشتِ ہزیمت میں ڈھے گئے

عشاقِ کم نصیب تری جستجو میں تھے

 

اب ان کا زکر بھی نہ رہا داستان میں

کل جو محاوروں کی طرح گفتگو میں تھے

 

خواہش کے ساتھ ساتھ فراموش ہو گئے

جو خوش گمان لوگ تری آرزو میں تھے

 

اک برف سی رواں ہے رگ و پے میں آجکل

رقصاں کبھی جنون کے شعلے لہو میں تھے

 

آنکھوں میں خونِ خوابِ وفا نقش ہو گیا

ورنہ ہزار رنگ غمِ سرخرو میں تھے

 

روشن ہوئے نہ پھر کسی آواز سے چراغ

مانا کہ لاکھ عیب ترے خوش گلو میں تھے

 

جس وقت چاکِ زخمِ انا سی رہے تھے تم

ریشے مرے بدن کے بھی تارِ رفو میں تھے

 

ناصر کہولتوں کا زمانہ ہے کیا کریں

وہ ولولے کہاں کہ جو عہدِ نمو میں تھے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ