اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف شاعر آرزو لکھنوی کا یوم وفات ہے۔

آرزو لکھنوی(پیدائش: 16 فروری، 1873ء- وفات: 17 اپریل، 1951ء)
——
آرزو لکھنوی کا نام سید انور حسین تھا ۔ ان کی پیدائش 16 فروری 1873 کو لکھنو کے ایک متمول خاندان میں ہوئی تھی ۔ ان کے والد میر ذاکر حسین یاس بھی شاعر تھے اس لئے انور حسین بچپن سے ہی شاعری کی جانب راغب ہو گئے اور شاگردی قادر الکلام شاعر جلال لکھنوی کی اختیار کی ۔
علامہ آرزو لکھنوی کی شخصیت ہشت پہل تھی ۔ انہوں نے صرف غزل گوئی نہیں کی ان کو شاعری کی تمام اصناف غزل گوئی ، مرثیہ گوئی ، نعت گوئی ، سلام گوئی ، قصیدہ گوئی ، مثنوی نگاری ، گیت ، رباعی اور تاریخ گوئی پر بھی درک حاصل تھا ۔ اس کے علاوہ وہ نثر پر بھی زبردست قدرت رکھتے تھے ۔ جہاں انہوں نے اسٹیج ڈرامے لکھے اور بر جستہ مکالموں کی تکمیل کی وہیں انہوں نے دو درجن سے زائد فلموں کے گانے اور مکالمے بھی لکھے تھے ۔
ان فلموں کے گانے اپنے زمانے میں بے حد مقبول ہوئے تھے ۔
——
دنیا میں ہوں دنیا کا طلبگار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
——
6 جنوری سنہ 1951کو آرزو لکھنوی ایک مشاعرے میں شرکت کی غرض سے کراچی گئے تھے ۔ ریڈیو پاکستان کے کنٹرولر سید ذوالفقار علی بخاری نے ان کی خدمات حاصل کرلیں۔ مگر پاکستان میں ان کا قیام بہت ہی مختصر رہا ۔ 16 اپریل سنہ 1951کو کراچی میں ان کا انتقال ہو گیا اور وہیں ان کی تدفین عمل میں آئی ۔
علامہ آرزو لکھنوی بچپن سے ہی قادر الکلام شاعر تھے ۔ کم عمری میں ہی ایک استاد نے ان کو ایک مصرعہ طرح دے کر چیلنج کیا کہ اس طرح میں زلف کی رعایت کے بغیر دو د ن کے اندر ایک شعر بھی کہہ دو تو ہم تمہیں شاعر مان لیں گے ۔ انہوں نے دو دن تو کیا محض چند گھنٹوں میں گیارہ اشعار کی غزل کہہ کر سنا دی اور سب عش عش کر اٹھے ۔
——
رقیب اپنے بہت ہیں یہ اس کی ہے تعبیر
کہ روز آکے ڈراتے ہیں ہم کو خواب میں سانپ
ہمارا درد جگر آسماں کا تیر شہاب
مقابلے کو چلے سانپ کے جواب میں سانپ
——
یہ بھی پڑھیں : نامور شاعر سید عابد علی عابد کا یومِ وفات
——
علامہ آرزو لکھنوی کے کلام میں ندرت ہے ، اس کے علاوہ انہوں نے اردو شاعری کو اپنی زمین سے جوڑنے کی کوشش کی ۔ اس لئے ان کی شاعری اس سر زمین سے پیوست نظر آتی ہے ۔ پروفیسر آل احمد سرور فرماتے ہیں:‘غزل کی زبان کو بول چال کی زبان سے قریب لا کر شاعر نے یہ واضح کیا ہے کہ شاعر کی بولی دنیا والوں کی بولی سے الگ نہیں ہو تی اور نہ وہ قدیم بحروں کی قید میں ہمیشہ اسیر رہتی ہے ۔ اسی لےے آرزو کے اشعار میں سادگی اور پر کاری ہے ۔’
——
اولین گیت نگار ، آرزو لکھنوی از یونس ہمدم
——
برصغیر میں خاموش فلموں کے بعد جب بولتی فلموں کا آغاز ہوا تو ان فلموں میں گیت برائے نام ہی ہوتے تھے اور جو گیت ہوتے تھے وہ فلم کے منظر اور ماحول کوگرمانے کے لیے ہوتے تھے۔ بے تکی شاعری ہوتی تھی بس کچھ الفاظ سروں میں سمو دیے جاتے تھے اور گیت گانے والے بھی فلموں کے ہیرو اور ہیروئن ہی ہوتے تھے، جیسے کہ ان دنوں سہگل، سریندر، پنکج ملک، خان مستانہ، کانن بالا، حسن بانو،کوشلیا، راج کماری اور پھر بعد میں آنے والی مشہور ہیروئن ثریا بھٹی شامل تھی اس دوران فلموں سے کوئی نامور شاعر وابستہ نہیں ہو سکا تھا کہ فلموں میں شاعری کی زیادہ ضرورت ہی نہیں ہوتی تھی۔
اس دورکی فلموں میں شاعری محض تک بندی تھی۔ پھرکچھ عرصے بعد آرزو لکھنوی وہ پہلے جید شاعر تھے جنھوں نے فلموں میں گیت لکھنے کا آغاز کیا اور ان کا پہلا سپرہٹ گیت جو منظر عام پر آیا وہ کندن لال سہگل کا تھا جو فلم ’’دیوداس‘‘ کے لیے سہگل کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا اور سہگل ہی پر فلمایا گیا تھا فلم کے بول تھے:
——
بالم آئے بسو مورے من میں
——
اور فلم دیوداس کے میوزک ڈائریکٹر تھے ثمر بدن۔ اس سے پہلے کہ میں شاعر آرزوؔ لکھنوی کے گیتوں کے سفر کا تذکرہ کروں ان کی ابتدائی زندگی کے بارے میں بیان کرونگا۔ گیت نگار آرزوؔ لکھنوی مشہور شاعر جلال لکھنوی کے شاگرد تھے مگر شاعری کی ابتدا ان کے گھر ہی سے ہوئی تھی۔ ان کا گھریلو نام سید انور حسین تھا اور ان کے والد ذاکر حسین جو خود ایک اچھے شاعر تھے ان کا نام ذاکر حسین یاسؔ تھا، لکھنو کا یہ ایک ادبی گھرانہ تھا۔ آرزوؔ لکھنوی کے بڑے بھائی بھی شاعر تھے اور ان کا نام میر یوسف حسن قیاسؔ تھا۔
اس طرح آرزوؔ لکھنوی کی شعری تربیت اپنے گھر ہی سے شروع ہوئی تھی، بارہ تیرہ برس کی عمر میں نہ صرف شاعری کے رموز سمجھنے لگے تھے بلکہ خود بھی شعرکہنے لگے تھے اور چودہ سال کی عمر میں لکھنو کے ایک نواب منجھلے آغا کے گھر میں ایک مشاعرے کی محفل میں پہلی بار بحیثیت شاعر منظر عام پر آئے تو اہل محفل کے دل موہ لیے تھے۔ بس پھر چل سو چل ان کی شاعری کا سفر شروع ہو گیا تھا پھر باقاعدگی سے مشاعروں میں بھی جانے لگے تھے۔ نوعمری ہی میں شہرت ان کے قدم چومنے لگی تھی۔ شاعری کیساتھ انھیں ڈرامہ نگاری سے بھی دلچسپی تھی اور وہ اپنے فارغ اوقات میں ڈرامے بھی لکھا کرتے تھے۔
ان کے کئی ڈرامے کتابی صورت میں بھی منظر عام پر آئے اور انھیں بھی بڑی شہرت ملی، ان ڈراموں کے نام تھے چاند گرہن، چراغِ توحید اور حسن کی چنگاری پھر کچھ عرصے بعد ان کے دو شعری مجموعے ’’جان آرزو‘‘ اور فغان آرزو بھی عوام میں بڑے پسند کیے گئے۔ اب لکھنوی سے دہلی اور پھر دہلی سے کلکتہ کا سفر شروع ہوتا ہے۔اس زمانے میں کلکتہ سب سے زیادہ فلموں کا مرکز تھا اور بنگالی فلموں کیساتھ ساتھ اردو فلموں کی پروڈکشنز بھی اپنے عروج پر تھیں۔ نیو تھیٹرکلکتہ کی ایک مشہور فلم کمپنی تھی آرزوؔ لکھنوی اس کمپنی سے وابستہ ہو گئے۔
ابتدا میں یہ زیر تکمیل فلموں کے اردو اسکرپٹ دیکھا کرتے تھے اور بعض فلموں میں انھوں نے کچھ مکالمے بھی لکھے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب اردو، ہندی، بنگالی،گجراتی اور پارسی زبان بولنے والے فنکاروں کو لے کر فلمیں بنائی جاتی تھیں اور آرزوؔ لکھنوی کو نیو تھیٹر میں آرٹسٹوں کے اردو تلفظ کی صحیح ادائیگی پر مامورکیا گیا تھا۔ یہ 1935ء کا زمانہ تھا اور پھر 1936ء میں فلم ’’دیوداس‘‘ بنی جسکے ہدایتکار پراماتھیش بروا تھے۔ سہگل نے دیوداس کا کردار ادا کیا تھا۔ اداکارہ جمونا نے پاروتی کا کردار ادا کیا تھا اور راج کماری چندرمکھی کے کردار میں نمایاں تھی ’’دیوداس‘‘ مشہور بنگالی ناول جسے سرت چندرا چٹو پادھیائے نے لکھا تھا، اس ناول سے ماخوذ تھی اور یہ ناول کئی بار فلم کی کہانیوں میں ڈھلی ہے اور ہر بار دیوداس کو عوامی پسندیدگی حاصل رہی ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : نامور شاعر جمیل الدین عالی کا یومِ پیدائش
——
اب میں پھر شاعر آرزوؔ لکھنوی کی طرف آتا ہوں۔ فلم دیوداس کے لیے جب آرزو لکھنوی نے گیت لکھے تو اس فلم کی ریلیزکے بعد ان کے گیتوں نے دھوم مچا دی تھی اور پھر نیو تھیٹرکی جو بھی فلم بنی اس کے گیت نگار آرزو لکھنوی ہی تھے۔ اب ان پر فلم انڈسٹری مہربان ہوتی چلی گئی، آرزوؔ لکھنوی نے اس دوران بیشمارگیت لکھے، نیو تھیٹرکی جن مشہور فلموں میں ان کے گیتوں کو مقبولیت حاصل ہوئی ان فلموں میں دیوداس، اسٹریٹ سنگر، آندھی، مکتی، جوانی کی ریت، ابھاگن، لگن، نرتکی، ڈاکٹر اور ہار جیت کے نام شامل ہیں اس دور کی چند فلموں کے گیتوں کے وہ مکھڑے بھی درج ذیل ہیں جنھیں بڑی شہرت ملی تھی۔
——
نہ جانے کیا ہے دل کا راز (مکتی)۔
سانوریا من بھایا رے (مکتی)
بابل مورا نہیں چھوڑا جائے (فلم، اسٹریٹ سنگر)
جوانی سب دھوکا ہے (جوانی کی ریت)
مرلیا جیون کا راگ بجائے (جوانی کی ریت)
یہ کون آج آیا سویرے سویرے (نرتکی)
مدھر بھری جوانی (نرتکی)
مہک رہی ہے پھلواری (ڈاکٹر)
میں سوئے بھاگ جگا دوں گا(لگن)
——
آرزوؔ لکھنوی ایک طویل عرصے تک کلکتہ کی فلم انڈسٹری میں اپنی شاعری کا لوہا منواتے رہے پھر انھیں بمبئی کی فلم انڈسٹری سے بھی بلاوے آنے لگے کیونکہ ان کے گلوکار اور اداکار دوست کندن لال سہگل بھی بمبئی کی فلم انڈسٹری میں اپنا مقام بنا چکے تھے۔ آرزوؔ لکھنوی 1942ء میں کلکتہ کو خیر باد کہہ کر بمبئی میں آن بسے اور یہاں آتے ہی نیشنل فلم اسٹوڈیو میں آرزوؔ لکھنوی کو بڑی چاہت سے اپنایا گیا۔ اس ادارے کی فلم روٹی، لالہ جی اور جوانی کے لیے گیت لکھے، ان فلموں کے گیت بھی بڑے مشہور ہوئے خاص طور پر یہ چند گیت:
——
بدنام نہ ہو جانا (جوانی)
رونے سے فرصت نہیں ( جوانی)
نظارے ہوئے ہیں اشارے ( جوانی)
اٹھ ساقیا پیمانہ اٹھا (روٹی)
ترے دیے میں کتنا تیل (لالہ جی)
——
نیشنل اسٹوڈیو کی فلموں کیساتھ ساتھ یہ دیگر فلمسازوں کی فلموں کی طرف بھی آتے گئے اورکئی مشہور فلم سازوں نے ان کے گیتوں کو اپنی فلموں کی زینت بنایا، اب آرزوؔ لکھنوی گیتوں کیساتھ مکالمے بھی لکھنے لگے تھے ۔اس دوران ان کی لکھی ہوئی جن فلموں نے کامیابی کے جھنڈے گاڑے ان میں بے قصور، تصور، پرایا دھن، پرکھ، فیشن اور نئی زندگی کے نام شامل تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ایک اداکار مظہرخان بحیثیت ہیرو بمبئی میں بڑے مشہور تھے جو بعد میں پاکستان بھی آگئے تھے اور انھوں نے یہاں بڑی کسمپرسی کی زندگی گزاری تھی۔ کسی زمانے میں ان کے نام سے بمبئی میں فلمیں بکتی تھیں۔ آرزوؔ لکھنوی نے اداکار مظہر خان کی فلم ’’یاد‘‘ کے مکالمے اور گیت بھی لکھے تھے۔ چند گیت بڑے ہٹ ہوئے تھے جن کے بول تھے:
——
آیا ساون کا مہینہ (فیشن)
ہائے راما ترچھی نظر نے مارا (یاد)
یاد جب بے چین کرتی ہے (یاد)
آئے دن پیار کے (یاد)
آئے دن پیار کے (پرکھ)
بہت گھروندے کھیلے (نئی زندگی)
——
1947ء میں ہندوستان تقسیم ہوا تو پھر فلم انڈسٹری میں بدلاؤ آتا چلا گیا۔ مسلمان فنکاروں کو نظرانداز کیا جانے لگا تھا۔ 1948ء میں آرزوؔ لکھنوی نے جن دو آخری فلموں کے لیے گیت لکھے تھے ان فلموں میں ایک تھی فلم ’’بے قصور‘‘ اور دوسری فلم کا نام تھا ’’رات کی رانی‘‘ اس فلم میں ایک گیت بڑا مشہور ہوا تھا جسے گلوکار محمد رفیع نے گایا تھا جسکے بول تھے:
——
جن راتوں میں نیند اڑ جاتی ہے
کیا قہر کی راتیں ہوتی ہیں
——
1950ء میں آرزو لکھنوی پاکستان آگئے اور کراچی میں سکونت اختیارکی تھی۔ یہاں ایک دو مشاعروں میں شرکت بھی کی تھی مگر اب 80 سال سے زیادہ عمر ہو چکی تھی اور پھر یہ یہاں آکر بیمار ہوگئے تھے اور اسی بیماری کی حالت میں کراچی ہی میں ان کا انتقال ہوا تھا اور انھیں لیاقت آباد کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا تھا۔ اس طرح ان کی موت سے فلمی شاعری کا ایک روشن باب ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا تھا۔
——
یہ بھی پڑھیں : افسانہ نگار محمد حسن عسکری کا یوم وفات
——
منتخب کلام
——
پوچھا جو ان سے چاند نکلتا ہے کس طرح
زلفوں کو رخ پہ ڈال کے جھٹکا دیا کہ یوں
——
وفا تم سے کریں گے دکھ سہیں گے ناز اٹھائیں گے
جسے آتا ہے دل دینا اسے ہر کام آتا ہے
——
جو دل رکھتے ہیں سینے میں وہ کافر ہو نہیں سکتے
محبت دین ہوتی ہے وفا ایمان ہوتی ہے
——
اللہ اللہ حسن کی یہ پردہ داری دیکھیے
بھید جس نے کھولنا چاہا وہ دیوانہ ہوا
——
اک منتظر وعدہ جا کر کہیں کیا بیٹھے
گھبرایا جو دل گھر میں دروازے پہ آبیٹھے
اک اپنے فغاںکش سے اللہ یہ بے دردی
سب کہتے ہیں ہاں ہاں ناوک وہ لگا بیٹھے
——
آپ کا انتظار کون کرے
زیست کا اعتبار کون کرے
ہاتھ بے چین ہے گریباں پاس
انتظار بہار کون کرے
غم دل سے ہے جب نہیں فرصت
تو غم روزگار کون کرے
——
اظہار الم کے لئے پہلو نکل آئے
نالوں کو کیا ضبط تو آنسو نکل آئے
——
کیوں کسی رہرو سے پوچھوں اپنی منزل کا پتا
موج دریا خود لگ لیتی ہے ساحل کا پتا
ہے نشان لیلٰی مقصود محمل کا پتا
دل رنا ہاتھ آ گیا پایا جہاں دل کا پتا
راہ الفت میں سمجھ لو دل کو گونگا رہ نما
ساتھ ہے اور دے نہیں سکتا ہے منزل کا پتا
کہتا ہے ناصح کہ واپس جاؤ اور میں سادہ لوح
پوچھتا ہوں خود اسی سے کوۓ قاتل کا پتا
راہبر رہزن نہ بن جاۓ کہیں اس سوچ میں
چپ کھڑا ہوں بھول کر رستے میں منزل کا پتا
آئی اک آواز تیر اور نکلی دل سے اف
پھر نہ قاتل کا نشاں پایا نہ بسمل کا پتا
بانکی چتون والے محشر میں ہزاروں ہیں تو ہوں
مل ہی جاۓ گا کسی صورت سے قاتل کا پتا
اس جگہ بسمل نے دم توڑا جہاں کی خاک تھی
یوں لگاتے ہیں لگانے والے منزل کا پتا
پوچھنے والے نے یہ پوچھا کہ کیوں بیدل ہو کیوں
اور مجھ کو مل گیا کھوۓ ہوۓ دل کا پتا
موجیں ٹکرائی ہوئیں دشمن بھی نکلیں دوست بھی
پیچھے کشتی کو دھکیلا دے کے ساحل کا پتا
رہ گیا ٹوٹ کر زخم جگر میں تیر ناز
اب لگا لینا نہیں دشوار قاتل کا پتا
سوختہ پروانے کشتہ شمع فرش داغ دار
دے رہے ہیں رات کی گرمئ محفل کا پتا
میں وفا کیش آرزوؔ اور وہ وفا نا آشنا
پڑ گیا مشکل میں پا کر اپنی مشکل کا پتا
——
وہ کیا لکھتا جسے انکار کرتے بھی حجاب آیا
جواب خط نہیں آیا تو یہ سمجھو جواب آیا
قریب صبح یہ کہہ کر اجل نے آنکھ جھپکا دی
ارے او ہجر کے مارے تجھے اب تک نہ خواب آیا
دل اس آواز کے صدقے یہ مشکل میں کہا کس نے
نہ گھبرانا نہ گھبرانا میں آیا اور شتاب آیا
کوئی قتال صورت دیکھ لی مرنے لگے اس پر
یہ موت اک خوشنما پردے میں آئی یا شتاب آیا
پرانے عہد ٹوٹے ہو گۓ پیماں نۓ قائم
بنا دی اس نے دنیا دوسری جو انقلاب آیا
گزر گاہ محبت بن گئی اک مستقل بستی
لگا کر آگ آیا گھر کو جو خانہ خراب آیا
معمہ بن گیا راز محبت آرزوؔ یوں ہی
وہ مجھ سے پوچھتے جھجھکے مجھے کہتے حجاب آیا
——
وہ سر بام کب نہیں آتا
جب میں ہوتا ہوں تب نہیں آتا
بہر تسکیں وہ کب نہیں آتا
اعتبار آہ اب نہیں آتا
چپ ہے شکوؤں کی ایک بند کتاب
اس سے کہنے کا ڈھب نہیں آتا
ان کے آگے بھی دل کو چین نہیں
بے ادب کو ادب نہیں آتا
زخم سے کم نہیں ہے اس کی ہنسی
جس کو رونا بھی اب نہیں آتا
منہ کو آ جاتا ہے جگر غم سے
اور گلہ تا بہ لب نہیں آتا
بھولی باتوں پہ تیری دل کو یقیں
پہلے آتا تھا اب نہیں آتا
دکھ وہ دیتا ہے اس پہ ہے یہ حال
لینے جاتا ہوں جب نہیں آتا
آرزوؔ بے اثر محبت چھوڑ
کیوں کرے کام جب نہیں آتا
——
اوّل شب وہ بزم کی رونق شمع بھی تھی پروانہ بھی
رات کے آخر ہوتے ہوتے ختم تھا یہ افسانہ بھی
قید کو توڑ کے نکلا جب میں اُٹھ کے بگولے ساتھ ہوئے
دشتِ عدم تک جنگل جنگل بھاگ چلا ویرانہ بھی
ہاتھ سے کس نے ساغر پٹکا موسم کی بے کیفی پر
اتنا برسا ٹوٹ کے بادل ڈوب چلا مے خانہ بھی
ایک لگی کے دو ہیں اثر اور دونوں حسبِ مراتب ہیں
لو جو لگائے شمع کھڑی ہے ، رقص میں ہے پروانہ بھی
حسن و عشق کی لاگ میں اکثر چھیڑ ادھر سے ہوتی ہے
شمع کا شعلہ جب لہرایا اُڑ کے چلا پروانہ بھی
دونوں جولاں گاہ جنوں ہیں ، بستی کیا ویرانہ کیا
اٹھ کے چلا جب کوئی بگولا دوڑ پڑا ویرانہ بھی
دورِ مسرّت آرزو اپنا کیسا زلزلہ آگیں تھا
ہاتھ سے منہ تک آتے آتے چھُوٹ پڑا پیمانہ بھی
——
ہم آج کھائیں گے اک تیر امتحاں کے لیے
کہ وقف کرنا ہے دل ناز جاں ستاں کے لیے
جلا کے دل کو لپک سے ڈرو نہ شعلے کی
زباں دراز ہے لیکن نہیں فغاں کے لیے
اسی چمن میں کہ وسعت ہے جس کی نامحدود
نہیں پناہ کی جا ایک آشیاں کے لیے
کیا تھا ضبط نے دعویٰ رازدارئ عشق
اٹھا ہے درد کلیجے میں امتحاں کے لیے
کسی کو ڈھونڈے نہ ملتا نظر کی چوٹ کا نیل
نہ ہوتا دل میں سویدا اگر نشاں کے لیے
سوائے دل کے جو سرمایۂ دو عالم ہے
نہ کچھ یہاں کے لیے ہے نہ کچھ وہاں کے لیے
نہ عشق جرم ہے کوئی نہ دل کی بات ہے راز
برا ہو شرم کا اک قفل ہے زباں کے لیے
خلاف اپنے رہی وضع ساز و برگ چمن
قفس بنے ہیں جو تنکے تھے آشیاں کے لیے
لرز رہے ہیں فلک آرزوؔ کہ آہ رسا
چلی ہے تیغ بکف فتح ہفت خواں کے لیے
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ