آسمانوں کو سنبھالوں تو زمیں گرتی ہے
میں زمیں تھام کے رکھوں تو فلک جاتا ہے
پھر ترے بخت میں جو ہو سو وہی صورت ہے
راستہ دشت کے آغاز تلک جاتا ہے
ساقیِ عشق ، ہر اک بار ہی دریا دل تھا
عمر کا جام ہی چھوٹا ہے چھلک جاتا ہے
دید کچھ یوں بھی تہی دست ہوئی جاتی ہے
ہر نظارے میں ترا عکس جھلک جاتا ہے
ایک ہی نقش کی تصویر کشی جاری ہے
دل سنوارے ہی تری نوک و پلک جاتا ہے
جس گھڑی شمع ، سرِ بزمِ جنوں بجھ جائے
شب کا آنچل ہے کہ سینے سے ڈھلک جاتا ہے