اردوئے معلیٰ

Search

آسمانوں کو سنبھالوں تو زمیں گرتی ہے

میں زمیں تھام کے رکھوں تو فلک جاتا ہے

 

پھر ترے بخت میں جو ہو سو وہی صورت ہے

راستہ دشت کے آغاز تلک جاتا ہے

 

ساقیِ عشق ، ہر اک بار ہی دریا دل تھا

عمر کا جام ہی چھوٹا ہے چھلک جاتا ہے

 

دید کچھ یوں بھی تہی دست ہوئی جاتی ہے

ہر نظارے میں ترا عکس جھلک جاتا ہے

 

ایک ہی نقش کی تصویر کشی جاری ہے

دل سنوارے ہی تری نوک و پلک جاتا ہے

 

جس گھڑی شمع ، سرِ بزمِ جنوں بجھ جائے

شب کا آنچل ہے کہ سینے سے ڈھلک جاتا ہے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ