آنکھوں آنکھوں میں تلاشی ہو گئی
عاشقی بھی بدمعاشی ہو گئی
فائدہ رونے سے اتنا تو ہوا
کشتِ دل پر آبپاشی ہو گئی
یار کے نازک سلیپر کے طفیل
اپنے منہ کی مُوتراشی ہو گئی
ہر گھڑی کرتا ہے دل رشوت میں پیش
طبعِ عاشق کیا ہی راشی ہو گئی
میرے دل میں بس رہے ہیں بُت ہی بُت
آہ یہ بستی بھی کاشی ہو گئی
ہو گیا ہے وہ مسولینی صفت
پالسی دلبر کی فاشی ہو گئی
کر لیا قبضے میں دل اس شوخ نے
آج لق لق کی تلاشی ہو گئی