ائے بدرکاب عمر تجھے کیا خبر کہ ہم
پچھلی مسافتوں میں کہیں گر کے کھو چکے
ائے تازگیِ رُوئے سحر، دیر ہوگئی
ہم شب گزیدگان اندھیرے میں سو چکے
ائے وائے امتدادِ زمانہ کہ آج ہم
لوحِ خیالِ یار سے معدوم ہو چکے
ائے ناشناس عہدِ ہوس پوش ، آ کہ ہم
اپنے جوان مرگ تقدس کو رو چکے
بس چھ برس میں نصف صدی بیتنے کو
ائے شامِ ہجر ، ہم کئی سورج ڈبو چکے