اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف شاعر اور نقاد ابو محمد سحر کا یوم پیدائش ہے

ابو محمد سحر (پیدائش: 10 اپریل 1930ء – وفات: 29 اپریل 2002ء)
——
نام ابو مّحمد ابوالقاسم، قلمی نام ابو محمد سحرؔ ہے۔ 10 اپریل 1930ء کو محی الدین پور، ضلع فتح پور اتر پردیش میں پیدا ہوئے تھے۔
ابو محمد سحر حمیدیہ کالج بھوپال میں پروفیسر اور اردو ڈپارٹمنٹ کے سربراہ تھے۔ انہوں نے درجن بھر سے زیادہ کتابیں لکھی ہیں۔
ابو محمد سحرؔ، 2002ء میں انتقال کر گئے ۔
——
ڈاکٹر ابو محمد سحر کی شعری کاوشیں از ظفر اقبال ظفرؔ
——
ڈاکٹر ابو محمد سحر کی کی ادبی زندگی کی کاوشیں تقریباََ نصف صدی تک پھیلی ہوئی ہیں ۔ انہوں نے تحقیق و تنقید کے ساتھ ساتھ اُردو غزل کی زلفیں بھی سنواری ہیں ۔
اُن کی شعری کاوشوں پر نظر ڈالیے تو محسوس ہوتا ہے کہ ان کی غزلوں میں ندرتِ خیال کے ساتھ تہذیبِ عاشقی کا پرتو بھی ہے ۔ ان کے مزاج میں جو نرمی ، شگفتگی ، شائستگی اور اخلاص ہے وہی ان کی غزل کا طرۂ امتیاز ہے ۔
ابو محمد سحر صاحب کی شاعری میں انسانی جذبات و احساسات کی کارفرمائی کے ساتھ جمالیاتی اظہار کا حسن بھی ہے ۔
سحر صاحب نے صرف تغزل کی نقش گری کو ہی نہیں اپنایا بلکہ اپنے عہد کے رنگ و آہنگ کو پیش کرنے کی سعی بھی کی ہے اس لیے ان کی شاعری میں مختلف النوع حالات کے عکس بکھرے نظر آتے ہیں ۔ چند اشعار ملاحظہ کریں :
——
دیکھا صنم کدوں کو تو اکثر ہوا خیال
وہ نقش جاوداں تھے جو پتھر میں رہ گئے
——
بلائے جاں تھی جو بزم تماشا چھوڑ دی میں نے
خوشا اے زندگی خوابوں کی دنیا چھوڑ دی میں نے
——
فصلِ گل کے لیے کیا جان پہ کھیلے کوئی
اب تو ہر موجِ بلا تحفۂ خوں مانگتی ہے
——
غیرتِ حسن پری رشکِ بہاراں کون تھا
دل ہمارا جس پہ آیا تھا وہ انساں کون تھا
——
ضمیرِ نوعِ انسانی کے دن ہیں
صداقت کی رجز خوانی کے دن ہیں
——
ابو محمد سحر صاحب کی غزلوں کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ انہوں نے حیاتِ انسانی اور معاشرے کا بھر پور مشاہدہ کیا ہے ۔اور پھر اسے غزل کا موضوع بنا کر پیش کیا ہے ۔
ان کی شاعری میں اگر روایت کا احترام ہے تو عصری حسیت کا اظہار بھی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں اجتماعی رنگ نظر آتا ہے :
——
ٹھہرے ذرا جو درد تو اس کو شفا کہیں
اک زہرِ جانگداز کو کب تک دوا کہیں
——
جڑ سے اُکھڑے ہوئے درخت سحرؔ
کب امیدِ سحاب رکھتے ہیں
——
شہر میں اسلحہ بلوائی لیے بیٹھے ہیں
اور ہم شکوۂ تنہائی لیے بیٹھے ہیں
——
کام ہر زخم نے مرہم کا کیا ہو جیسے
اب کسی سے کوئی شکوہ نہ گلہ ہو جیسے
——
دروازے وا تھے پھر بھی عجب بے دری سی تھی
ہم خود اسیر ہو کے کُھلے گھر میں رہ گئے
——
شناخت کس کی ہو بے چہرگی کی راہوں میں
خود اپنا چہرہ بھی اب اجنبی سا لگتا ہے
——
خوف میں ہم نے ہٹائی نام کی تختی مگر
دیکھیئے اس طرح بھی اپنا نشاں کب تک رہے
——
ابو محمد سحر صاحب کی غزلیں جذبوں کی فراوانی ، اظہارِ بیان کی فنکارانہ لطافت ، بلندیٔ فکر ، زندگی کے نوع بہ نوع استعاروں سے مزین ہے جو ان کی شاعرانہ بصیرت ، تجربات اور ان کے تخلیقی احساس کی مظہر ہیں :
——
پھر یہ وحشت ہے کہ پڑ جائیں لکیریں دل میں
ایک تقسیم کا اندوہ و محن یاد نہیں
——
حکومت وجہِ استبداد کیوں ہو
اسی نکتے کی ارزانی کے دن ہیں
——
یہ دشتِ زیست اور یہ خارا تراشیاں
جلوے ہنر کے سینۂ آزر میں رہ گئے
——
آئی کہاں سے گردِ ملامت یہ سب کے سر
کس نے اڑائی خاک ، بیاباں سے پوچھیے
——
ابو محمد سحر صاحب کی غزلوں میں ہمیں مختلف فکر و نظر کے جلوے نظر آتے ہیں ۔ چند اشعار پیش ہیں :
——
شاید کہیں سے وجہِ ستم کا ملے سراغ
یہ زخمِ سر تو ٹھیک ہے پتھر بھی دیکھ لے
——
دشت میں بود و باش ہو جیسے
شہر میں گھر بنا کے دیکھ لیا
——
عقل تو کب کی ہوئی گردشِ حالات میں گُم
حوصلہ دل کا بھی اب ٹوٹ رہا ہو جیسے
——
غم کریں کیا شکستہ خوابوں کا
پھول تھے ، کچھ بکھر گئے یارو
——
یہ کیا کہ ڈوب کر ہی ملے ساحلِ نجات
سیلابِ خوں سے پار اُترنا بھی سیکھیے
——
اچھی شاعری کسی نوع ، کسی عہد کی ہو شعریت کا ہونا لازمی ہے بغیر اس کے طرزِ ادا میں دلکشی نہیں پیدا ہو سکتی ۔ اور نہ قاری کی توجہ مبذول کروا سکتی ہے ۔
ابو محمد سحر صاحب کی شاعری میں یہ خوبی بدرجۂ اُتم پائی جاتی ہے ، ان کے یہاں اگر عہدِ نو کی سچائی کا عکس ہے تو اس کے مسائل کا منظر نامہ بھی جس سے ان کا شعری حسن بڑھ کر آفاقی حسن اختیار کر گیا ہے ۔
حالانکہ ابو محمد سحر صاحب نے ایک ممتاز و وقیع ناقد و محقق کی حیثیت سے ادب میں اپنی شناخت بنائی ہے لیکن ان کی شعری کاوشوں کو بھی بساطِ سخن کا سرمایہ کہا جا سکتا ہے ۔
اُن کی تنقیدی اور تحقیقی کارناموں پر خامہ فرسائی کے لیے کافی صفحات درکار ہیں اور ان کی ذات و صفات پر کچھ لکھنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے ۔ وہ فتح پور کی ایسی نابغۂ روزگار شخصیت ہیں جن پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے ۔
——
منتخب کلام
——
فکر و نظر نے کھولے کتنے رموزِ ہستی
لیکن کُھلا نہ اُس کی پہلی نظر میں کیا تھا
——
کہاں یہ ہوش کہ کچھ اہتمام ہم کرتے
یہ بام و در تیرے آنے سے جگمگائے ہیں
——
ہندو سے پوچھیے نہ مسلماں سے پوچھیے
انسانیت کا غم کسی انساں سے پوچھیے
——
ہوتا ہے پستیوں کے مقدر میں بھی عروج
اک موجِ تہہ نشیں کا اُبھرنا بھی سیکھیے
——
ہر چند وقفِ یاس ہے تصویرِ کائنات
اے دل مگر وہ حسن کا پیکر بھی دیکھ لے
——
نام کیا شکل بھی اب یاد نہیں ہے ان کو
اور ہم فخرِ شناسائی لیے بیٹھے ہیں
——
اس کاروبارِ عقل سے گھبرا گیا ہے جی
کوئی سُنے تو دل کا بھی کچھ ماجرا کہیں
——
پھر کُھلے ابتدائے عشق کے باب
اُس نے پھر مسکرا کے دیکھ لیا
——
کام آئی نہ تدبیر کوئی اہلِ وفا کی
آخر وہی تقدیر کا غم لے کے چلے ہیں
——
ترکِ الفت میں بھی الفت کے نشاں باقی ہیں
قافلہ لُٹ کے تری سمت رواں آج بھی ہے
——
قول و قسم ہیں دیکھے بھالے رہنے بھی دیجے آج یہ وعدے
آنکھوں میں ساری رات کٹے گی آپ کا کیا ہے آئے نہ آئے
——
تقدیر میں قوموں کی معلوم نہیں کیا ہے
صدیوں کے جو بُت ٹوٹے لمحوں کے خدا آئے
——
آتے ہیں یاد اکثر چھوڑے ہوئے مکاں بھی
چہروں کے ساتھ ان کے دیوار و در میں کیا تھا
——
اب ہم کو رہ گیا ہے بس اتنا خوشی سے کام
جب ہو سکا نہ ضبط ِ الم ، مسکرا دئیے
——
بلائے جاں تھی جو بزمِ تماشا چھوڑ دی میں نے
خوشا اے زندگی خوابوں کی دنیا چھوڑ دی میں نے
جو رہتیں بھی تو میرے شوق کی گلکاریاں کب تک
چلو اچھا ہوا تزئینِ صحرا چھوڑ دی میں نے
نہ ہو جب حال ہی اپنا تو مستقبل کی پروا کیا
غمِ امروز چھوڑا ، فکرِ فردا چھوڑ دی میں نے
مرض وہ ہے کہ صدیاں بھی مداوا کر نہیں سکتیں
توقع تجھ سے اے عمرِ دو روزا چھوڑ دی میں نے
اگر مقدور ہو تو پوچھ سیلِ کم سوادی سے
حکایت تیری کیوں اے مردِ دانا چھوڑ دی میں نے
مری تقلید میں گُم ہو نہ جائے راہرو کوئی
کہ ہر منزل پسِ نقشِ کفِ پا چھوڑ دی میں نے
سحرؔ اب ہو گا میرا ذکر بھی روشن دماغوں میں
محبت نام کی اک رسمِ بے جا چھوڑ دی میں نے
( برگِ سحر صفحہ نمبر 3، 4 )
——
شہر میں اسلحہ بلوائی لیے بیٹھے ہیں
اور ہم شکوۂ تنہائی لیے بیٹھے ہیں
مرگ تو گھات میں ہے اور ادب کے معمار
فن کی تکمیل یہ سوادائی لیے بیٹھے ہیں
اتھلے پانی سے برآمد ہوئی لاشیں اور ہم
فکرِ اقبال کی گہرائی لیے بیٹھے ہیں
غالبؔ و میرؔ نے کس کس سے محبت کی تھی
غم یہ تحقیق کے شیدائی لیے بیٹھے ہیں
ذوقؔ کو ملتی تھی تنخواہ ظفرؔ سے کتنی
کتنی تھی آمدِ بالائی لیے بیٹھے ہیں
جنگ کی فکر ہمیں اور نہ پروائے فساد
ناتوانی میں توانائی لیے بیٹھے ہیں
جن کے اطوار سے مانگے ملک الموت پناہ
اُن سے امیدِ مسیحائی لیے بیٹھے ہیں
دور اب وہ ہے کہ پیرانِ جہاندیدہ کہیں
طفلِ معصوم کی دانائی لیے بیٹھے ہیں
ملک میں شہرت و عزت کے تو دن بیت گئے
اب تو سب خطرۂ رُسوائی لیے بیٹھے ہیں
نام کیا شکل بھی اب یاد نہیں ہے ان کو
اور ہم فخرِ شناسائی لیے بیٹھے ہیں
اپنی وحشت کا بھی افسانہ اب اتنا ہے سحرؔ
گھر میں اک آہوئے صحرائی لیے بیٹھے ہیں
( برگِ سحر صفحہ نمبر 28 )
——
اے عمرِ رفتہ تیری شام و سحر میں کیا تھا
اک در میں کیا کشش تھی ، اک رہگذر میں کیا تھا
کیوں دیکھ کر اسے ہم وقفِ الم ہوئے تھے
اس دل کو کیا ہوا تھا ، اُس عشوہ گر میں کیا تھا
فکر و نظر نے کھولے کتنے رموزِ ہستی
لیکن کھلا نہ اس کی پہلی نظر میں کیا تھا
آتے ہیں یاد اکثر چھوڑے ہوئے مکاں بھی
چہروں کے ساتھ ان کے دیوار و در میں کیا تھا
تھک ہار کے ہیں بیٹھے اک دشتِ بے اماں میں
منزل کہاں تھی اپنی ، عزمِ سفر میں کیا تھا
پہلے سرشکِ غم تھے یا پھر خوشی کے آنسو
جز گریۂ ندامت اب چشمِ تر میں کیا تھا
دولت خلوص کی تھی سادہ سی بستیوں میں
ورنہ سحرؔ بظاہر اُجڑے نگر میں کیا تھا
( برگِ سحر صفحہ نمبر 48 )
——
کیا کر گئی وہ تیغِ ادا ہم سے پوچھیے
گزری شہیدِ عشق پہ کیا ہم سے پوچھیے
رحمت گناہگارِ محبت پہ ہو نہ ہو
خوف و ہراسِ روزِ جزا ہم سے پوچھیے
مرضی خدا کی کیا ہے کوئی جانتا نہیں
کیا چاہتی ہے خلقِ خدا ہم سے پوچھیے
کٹتا ہے دن نہ رات گزرتی ہے چین سے
بے لطف زندگی کی سزا ہم سے پوچھیے
برپا کیا ہے ظلم و ستم جس نے شہر میں
اس پیکرِ جفا کا پتا ہم سے پوچھیے
سیلابِ غم میں ہم نے گزاری ہے ایک عمر
آئی کہاں سے موجِ بلا ہم سے پوچھیے
انسانیت ہی جیسے زمانے سے اُٹھ گئی
ہر سمت کیوں ہے آہ و بکا ہم سے پوچھیے
شر و فساد قربِ قیامت کی ہے دلیل
کب ہو گا روزِ حشر بپا ہم سے پوچھیے
ماضی کی یاد وجہِ مسرت بھی ہے سحرؔ
آیا ہے آج کتنا مزا ہم سے پوچھیے
( برگِ سحر صفحہ نمبر 70 )
——
اک تحفۂ نو سوئے حرم لے کے چلے ہیں
پہلو میں محبت کا صنم لے کے چلے ہیں
صحرا میں کہاں پرتوِ اندازِ گلستاں
خود اپنی نگاہوں کا بھرم لے کے چلے ہیں
کیا حال ہے دل کا اسے اب کون بتائے
محفل سے تری دیدۂ نم لے کے چلے ہیں
کانٹوں کا گلہ کیا ہے کہ ہم راہِ طلب میں
اک دشتِ بلا زیرِ قدم لے کے چلے ہیں
ہر جُنبشِ پا کاشفِ اسرارِ جہاں ہے
ہم جب بھی چلے ساغرِ جم لے کے چلے ہیں
سرمایۂ دل ، جنسِ وفا ، خوابِ تمنا
کیا کیا سرِ بازارِ ستم لے کے چلے ہیں
آئی ہے کسی جلوۂ گہِ ناز کی پھر یاد
بھولے ہوئے کچھ قول و قسم لے کے چلے ہیں
منزل پہ پہنچ کر عجب افتاد پڑی ہے
اک قافلۂ یاس و الم لے کے چلے ہیں
کام آئی نہ تدبیر کوئی اہلِ وفا کی
آخر وہی تقدیر کا غم لے کے چلے ہیں
سوزِ غمِ الفت کہ سحرؔ سوزِ غمِ دہر
ہر سوز پئے لوح و قلم لے کے چلے ہیں
( برگِ سحر صفحہ نمبر 84 )
——
حوالہ جات
——
تحریر : ظفر اقبال ظفر ، کتاب : صاحبِ فکر و نظر ڈاکٹر ابو محمد سحر
مرتبین : کوثر صدیقی ، مختار شمیم ، صفحہ نمبر 388 تا 392
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ