اردوئے معلیٰ

Search

ادا اس طرح سے حق ہو شہہِ بطحا کی اُلفت کا

کھلے ایوانِ شخصیَّت میں اِک گلزار سیرت کا

 

لکھی جائے جب ان کی نعت پھیلے نور ہر جانب

کیا جائے جب ان کا ذکر برسے اَبر رحمت کا

 

الٰہی! نعت لکھنی ہے ترے محبوب کی مجھ کو

عطا ہو جائے مجھ کو بھی سلیقہ ان کی مدحت کا

 

مجھے بھی سیدالکونین سے اُلفت کا دعویٰ ہے

پڑے مجھ پر بھی پرتو نیّرِ بطحا کی سیرت کا

 

ذرا سوچا تھا ان کی زندگی کس طرح گزری تھی

کہ میرے ذہن و دل پر کھل گیا روزنِ بصیرت کا

 

امینِ علم و حکمت تھے مسلماں ہر زمانے میں

کیا ہر باب لیکن آج خود پر بند حکمت کا

 

فضیلت کا مسلمانوں میں اک معیار تھا ’’تقویٰ‘‘

مدار اب ہو گیا دنیا کی دولت پر فضیلت کا

 

مگر یہ تیرگیٔ زر پرستی ختم کیوں کر ہو

کوئی کوکب نہیں ہے مطلعِ دل پر قناعت کا

 

اگر دل کا تعلق رحمتِ عالم سے محکم ہے

تو پھر ان بستیوں میں کیوں ہوا ہے راج ظلمت کا

 

مسائل کے یہ اژدر کیوں ڈراتے ہیں مسلماں کو؟

لہو پیتا ہے کیوں عفریت ہر لحظہ سیاست کا؟

 

تفاوت کیوں نہیں مٹتا ہے طرزِ زندگانی کا؟

کمر افلاس کی خم ہے تو سر اُونچا امارت کا

 

اگر ہے جذبۂ حُبِّ نبی میں کچھ بھی سچائی

تو پھر کیوں سر نگوں ہے، آج بھی پرچم صداقت کا

 

کہیں ہم نفس کی اپنے، پرستش تو نہیں کرتے

کہیں دھوکا تو ہم کھاتے نہیں حُبِّ رسالت کا

 

بنامِ عشق احمد خواہشوں کو پوجتے رہنا

اڑاتے ہوں کہیں ہم خود نہ یوں خاکہ شریعت کا

 

انا تسکین پاتی ہے نمائش گاہ میں اکثر

برابر گرم ہے بازار ہر جانب رعونت کا

 

اِسی حالت میں اپنی مست ہیں ہم اور نازاں ہیں

ٹپکتا ہی نہیں آنسو کبھی کوئی ندامت کا

 

بایں احوال شاہِ بحر و بر کا ذکر جاری ہے

خیال اِک لمحہ بھی آتا نہیں دل کی نفاست کا

 

الٰہی! آگہی کے ساتھ توفیقِ عمل بھی دے

کریں مدحت تو کچھ مقصد بھی سمجھیں اُن کی بعثت کا

 

بدل دے اب تو یارب دل کی بستی کی فضائیں بھی

کہ پھر تعمیر ہو اخلاص پرایواں مودّت کا

 

وہ جن کی ذات ہے وجہِ وجودِ عالمِ امکاں

وہ جن کا نور ہے نقش نُخُستیں ساری خلقت کا

 

اُنہی کے اُسوۂ کامل کو پھر اپنا سکیں ہم بھی

کہ جن کے نام سے اُونچا ہے پرچم آدمیت کا

 

ابھی کہنا بہت کچھ تھا مجھے نعتِ پیمبر میں

ٹھکانہ ہی نہیں کوئی مرے مضموں کی وسعت کا

 

مگر یہ سوچ کر اکثر خجالت مجھ کو ہوتی ہے

کہ میں خود بھی تو ہوں مارا ہوا اپنی ہی غفلت کا

 

عمل کی ساعتیں ہر روز کَل پر ٹلتی جاتی ہیں

عمل سے پیشتر، دل منتظر رہتا ہے مہلت کا

 

الٰہی! اب مرے احساس کو اتنی جلا دے دے

مجھے ہو پاس ہر لحظہ مرے آقا کی نسبت کا

 

عزیزؔ، احمد رضاؔؒ کی شاعری پیشِ نظر رکھو!

تو شاید حق ادا ہو جائے کچھ، آقا کی مدحت کا

 

دسمبر ۱۹۸۲ء میں دارالعلوم امجدیہ کراچی کے طرحی مشاعرے میں پڑھی گئی۔
مصرعہ طرح تھا: گنہگارو چلو مولا نے در کھولا ہے جنت کا(حضرت احمد رضا خانؒ بریلوی)
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ