اردوئے معلیٰ

Search

آج نامور شاعر، محقق اور ادیب ڈاکٹر اسلم انصاری کا یوم پیدائش ہے

(تاریخ پیدائش: 30 اپریل، 1939ء )
——
ڈاکٹر اسلم انصاری ملتان سے تعلق رکھنے والے شاعر، ادیب اور محقق ہیں۔ آپ اردو اور فارسی زبانوں میں شاعری کرتے ہیں۔ اسلم انصاری نے سرائیکی ناول اور اردو افسانہ بھی لکھا ہے۔ اسلم انصاری ملتان کے علاقے پاک گیٹ کے ایک محلے میں پیدا ہوئے .ان کا تعلق ایک علمی اور ادبی گھرانے سے ہے۔ اسلم انصاری نے ایمرسن کالج ملتان سے بی اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد اورینٹل کالج لاہور سے ایم اے اردو اعلیٰ نمبروں کے ساتھ مکمل کیا۔ ان کا شمار سید عبد اللہ کے پیارے شاگردوں میں ہوتا تھا۔ یہیں ان کی ملاقات ناصر کاظمی سے ہوئی۔ اسلم انصاری کے مطابق ناصر کاظمی نے پہلی بارش کی غزلوں کا آئیڈیا انھی سے لیا۔ اسلم انصاری کی مثال علم ودانش کے ایک منبع کی ہے۔ ان کے شعر و فکر اقبال کے گہرے اثرات دکھائی دیتے ہیں
——
آئینہ خانہ عالم میں کھڑا سوچتا ہوں
میں نہ ہوتا تو یہاں کون سا چہرہ ہوتا
——
جو سوچیے تو سبھی کارواں میں شامل ہیں
جو دیکھیے تو سفر میں ہرایک تنہا ہے
——
یہ بھی پڑھیں : پروفیسر محمد اسلم کا یوم وفات
——
اسلم انصاری طویل عرصہ محکمہ تعلیم سے وابستہ رہے .کچھ عرصہ ملتان آرٹس کونسل کے ڈائرکٹر بھی رہے .انھیں حکومت پاکستان کی طرف سے تمغا امتیاز بھی عطا کیا گیا۔ اسلم انصاری کی شعری وادبی تفہیم کے لیے ڈاکٹر افتخارشفیع اور ڈاکٹر جاوید اصغر کی کتابیں اہم ہیں .
——
جدید تر اُردو غزل کا فنی مطالعہ از ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد ( اقتباس )
——
اسلم انصاری ، خورشید رضوی اور غلام محمد قاصر اگرچہ ستر کی دہائی سے بہت پہلے مطلعِ سخن پر نمودار ہوئے اور اپنے کلام کی نفاست اور لہجے کی نُدرت کے باعث مقبول ٹھہرے مگر ان کا اسلوبِ خاص جو ان کی شناخت کا وسیلہ بنا،ستر کی دہائی میں اپنی تکمیلی صورت میں ظاہر ہوا۔ غزلیہ روایت کے تہذیبی عناصر اور فکر و فن کے کامل ادراک کے باعث ان شاعروں نے جدید تر غزل کی داغ بیل ڈالی۔ ان کی غزلوں میں ’’جدید غزل‘‘ کی مخصوص چاردیواری سے باہر نکل کر نئی منزلوں کی طرف بڑھنے کی کیفیت واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔
اسلم انصاری کی غزل پر ناصر کاظمی کے رنگِ خاص کی چھوٹ پڑتی نظر آتی ہے لیکن اس سے اسلم کے انفرادی رنگ کا نقش ماند نہیں پڑتا۔ ناصر سے استفادہ اُس ذہنی اور فکری قربت کا آئینہ دار ہے جس کے باعث ناصر نے اسلم انصاری کو اپنا ہم عصر قرار دیا ہے۔(۱) اسلم انصاری کی غزل روایت کی کوکھ سے پھوٹتی ہے اس لیے اس کے خارج اور باطن میں غزلیہ روایت کے تمام نقش و نگار اپنی جلوہ سامانیوں کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ ڈاکٹر نجیب جمال کے بقول:
’’ اس کی غزل میں اُردو کی شعری روایت کا تسلسل اپنے تمام تر تہذیبی و سماجی تناظر کے ساتھ اس کے انفرادی لہجے میں ڈھلتا ہے۔ اسلم انصاری کی غزل خارجی تجربے اور داخلی واردات کی کش مکش کو اظہار کا قرینہ عطا کرتی ہے اور جذبہ، تخیل اور فکر کے تثلیثی امتزاج کی حامل ہے۔‘‘ (۲)
اسلم انصاری کی غزل میں تمثال کاری کا ہُنر اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ عکس فگن ہے۔ ان کی تمثالوں میں ان کا عہد پوری طرح سانس لیتا دکھائی دیتا ہے۔
اگر تصویر سازی اور پیکر تراشی میں زبان و بیان کی جملہ نزاکتیں اور رعنائیاں گندھی ہوئی نہ ہوں تو تصویریں محض خارج کا اظہار یہ بن جاتی ہیں ان میں قلب و نظر سے کلام کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہوسکتی۔ اسلم کی تمثال کاری میں صرف ’’موجود‘‘ عکس ریز نہیں ہوتا بلکہ ’’ ناموجود‘‘ بھی جھلکتا ہے جو ان کے خوابوں ، خواہشوں اور تمناؤں کے رنگ سے تشکیل پاتا ہے۔ یہ سارا تخلیق عمل اسلم انصاری کی فنی پختگی اور تکنیکی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے عام فہم اور مانوس لفظیات کو نیا مفہومی منظر نامہ عطا کیا ہے جو عہدِ جدید سے غزل کی ہم آہنگی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اسلم انصاری کے اسلوب کی سج دھج اور دل کشی ذیل کے اشعار سے مترشح ہے:
——
اپنی صدا کی گونج ہی تجھ کو ڈرا نہ دے
اے دل طلسمِ گنبدِ شب میں صدا نہ دے
——
جوئے نغمات پہ تصویر سی لرزاں دیکھی
لبِ تصویر پہ ٹھہرا ہوا نغمہ دیکھا
——
یہ بھی پڑھیں : ڈاکٹر اسلم فرخی کا یوم وفات
——
جسے درپیش جدائی ہو اسے کیا معلوم
کون سی بات کو کس طرح بیاں ہونا ہے
——
خفا نہ ہو کہ ترا حسن ہی کُچھ ایسا تھا
میں تجھ سے پیار نہ کرتا تو اور کیا کرتا
——
منتخب کلام
——
کون ہوتا ہے شریکِ غمِ ہستی اے دوست !
ڈال بھی سوکھے ہوئے پات گرا دیتی ہے
——
اک برگ برگ دن کی خبر چاہیے مجھے
میں شاخِ شب زدہ ہوں ، سحر چاہیے مجھے
——
دیوار خستگی ہوں مجھے ہاتھ مت لگا
میں گر پڑوں گا دیکھ مجھے آسرا نہ دے
——
جسے درپیش جدائی ہو اسے کیا معلوم
کون سی بات کو کس طرح بیاں ہونا ہے
——
ہم کو پہچان کہ اے بزم چمن زار وجود
ہم نہ ہوتے تو تجھے کس نے سنوارا ہوتا
——
بجھی ہے آتش رنگ بہار آہستہ آہستہ
گرے ہیں شعلۂ گل سے شرار آہستہ آہستہ
وہ اک قطرہ کہ برگ دل پہ شبنم سا لرزتا تھا
ہوا ہے بحر نا پیدا کنار آہستہ آہستہ
کبھی شور قیامت گوش انساں تک بھی پہنچے گا
کوئی سیارہ بدلے گا مدار آہستہ آہستہ
اڑا ہے رفتہ رفتہ رنگ تصویر محبت کا
ہوئی ہے رسم الفت بے وقار آہستہ آہستہ
سراب آرزو میں پھر کوئی منظر بھی چمکے گا
اٹھے گی دشت سے موج غبار آہستہ آہستہ
بہت دن تک سلاسل کی صدا آئی ہے زنداں سے
ملا ہے بے قراروں کو قرار آہستہ آہستہ
وہ سب ارباب جذب و شوق جن پر ناز تھا ہم کو
ہوئے ہیں ہوشمندی کے شکار آہستہ آہستہ
کبھی ملحوظ ہم کو بھی سخن میں ربط معنی تھا
ہوا ہے زہر غم آشفتہ کار آہستہ آہستہ
کہیں یارو تمہیں پھر گہری یاسیت نہ چھو جائے
رہو راہ طلب میں محو کار آہستہ آہستہ
——
کچھ تو غم خانۂ ہستی میں اجالا ہوتا
چاند چمکا ہے تو احساس بھی چمکا ہوتا
آئینہ خانۂ عالم میں کھڑا سوچتا ہوں
میں نہ ہوتا تو یہاں کون سا چہرہ ہوتا
خود بھی گم ہو گئے ہم اپنی صداؤں کی طرح
دشت فرقت میں تجھے یوں نہ پکارا ہوتا
حسن اظہار نے رعنائی عطا کی غم کو
گل اگر رنگ نہ ہوتا تو شرارہ ہوتا
ہم بھی احساس کی تصویر بنا سکتے تھے
کاش ہم پہ کبھی اظہار کا در وا ہوتا
فرصت شوق نہ دی کرب وفا نے رونا
کوئی اعجاز تو ہم نے بھی دکھایا ہوتا
ہم کو پہچان کہ اے بزم چمن زار وجود
ہم نہ ہوتے تو تجھے کس نے سنوارا ہوتا
ایک صورت سے ہوا نقش دو عالم کو فروغ
آئینہ ٹوٹ نہ جاتا تو تماشا ہوتا
ہم نے ہر خواب کو تعبیر عطا کی اسلمؔ
ورنہ ممکن تھا کہ ہر نقش ادھورا ہوتا
——
ہر شخص اس ہجوم میں تنہا دکھائی دے
دنیا بھی اک عجیب تماشا دکھائی دے
اک عمر قطع وادیٔ شب میں گزر گئی
اب تو کہیں سحر کا اجالا دکھائی دے
اے موجۂ سراب تمنا ستم نہ کر
صحرا ہی سامنے ہے تو صحرا دکھائی دے
میں بھی چلا تو پیاس بجھانے کو تھا مگر
ساحل کو دیکھتا ہوں کہ پیاسا دکھائی دے
الفاظ ختم ہوں تو ملے رشتۂ خیال
یہ گرد بیٹھ جائے تو رستہ دکھائی دے
کون اپنا عکس دیکھ کے حیراں پلٹ گیا
چہرہ یہ موج موج میں کس کا دکھائی دے
تو منکر وفا ہے تجھے کیا دکھاؤں دل
غم شعلہ نہاں ہے بھلا کیا دکھائی دے
ہر شب در خیال پہ ٹھہرے وہ ایک چاپ
ہر شب فصیل دل پہ وہ چہرہ دکھائی دے
لب‌ بستگی سے اور کھلے غنچۂ صدا
وہ چپ رہے تو اور بھی گویا دکھائی دے
اسلمؔ غریب‌ شہر سخن ہے کبھی ملیں
کہتے ہیں آدمی تو بھلا سا دکھائی دے
——
اپنی صدا کی گونج ہی تجھ کو ڈرا نہ دے
اے دل طلسم گنبد شب میں صدا نہ دے
دیوار خستگی ہوں مجھے ہاتھ مت لگا
میں گر پڑوں گا دیکھ مجھے آسرا نہ دے
گل کر نہ دے چراغ وفا ہجر کی ہوا
طول شب الم مجھے پتھر بنا نہ دے
ہم سب اسیر دشت ہویدا ہیں دوستو
ہم میں کوئی کسی کو کسی کا پتا نہ دے
سب محو نقش پردۂ رنگیں تو ہیں مگر
کوئی ستم ظریف یہ پردہ ہٹا نہ دے
اک زندگی گزیدہ سے یہ دشمنی نہ کر
اے دوست مجھ کو عمر ابد کی دعا نہ دے
ڈرتا ہوں آئنہ ہوں کہیں ٹوٹ ہی نہ جاؤں
اک لو سی ہوں چراغ کی کوئی بجھا نہ دے
ہاں مجھ پہ فیض میرؔ و فراقؔ و ندیمؔ ہے
لیکن تو ہم سخن مجھے اتنی ہوا نہ دے
——
فقط حرف تمنا کیا ہے
——
شام روشن تھی سنہری تھی
مگر اتری چلی آتی تھی
زینہ زینہ
آ کے پھر رک سی گئی
شب کی منڈیروں کے قریں
اک ستارہ بھی کہیں ساتھ ہی جھک آیا تھا
جیسے وہ چھونے کو تھا کانوں کے بالے اس کے
گیسوؤں کو بھی کہ تھے رخ کے حوالے اس کے
کہنیاں ٹیکے ہوئے ایک دھڑکتی ہوئی دیوار پہ وہ
کھلکھلاتے ہوئے کچھ مجھ سے کہے جاتی تھی
اس کا آہنگ سخن منفرد لحن کلام
زمزمے پھوٹتے تھے جس سے شگوفوں کی طرح
جھیل پہ پنچھی کوئی پنکھ سنوارے جیسے
سر کی لہروں پہ کوئی دل کو پکارے جیسے
سانولے چہرے پہ وہ کانوں کے بالے کی دمک
ناز بے جا بھی نہ تھا رخ پہ تفاخر کی جھلک
اتنی پر نور تھیں وہ آنکھیں کہ گماں ہوتا تھا
جیسے خورشید ابھی ڈوب کے ابھرے گا انہیں آنکھوں سے
لیکن اس شام ان آنکھوں سے اچانک ٹوٹے
دو ستارے جو لرزتے رہے تا دیر لرزتے ہی رہے
جیسے کہتے ہوں کہ اس شام گریزاں کا بھروسا کیا ہے
دل نہ چاہے تو فقط حرف تمنا کیا ہے
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ