اس طرح میں نے شرف ان کا بڑھایا ہوا ہے
یعنی آنکھوں میں مدینے کو بسایا ہوا ہے
یہ جو دنیا کے مقابل میں کھڑا ہوں آقا
حوصلہ آپ کی رحمت کا بڑھایا ہوا ہے
حاضری کا ہو مجھے اذن مِرے سرورِ دیں
میں نے بھی آس کا اک دیپ جلایا ہوا ہے
آپ کی سمت سے بس ایک نظر کا طالب
دل میں مدّت سے یہ ارمان بسایا ہوا ہے
کر رہا ہے جو یہ صدیوں سے مدینے کا طواف
کرہء ارض جو مولا نے گھمایا ہوا ہے
اس لئے تو میں ہواؤں میں اڑا جاتا ہوں
مدنی آقا نے مجھے در پہ بلایا ہوا ہے
آبِ گریہ سے ہے سینچا اسے میں نے تنوؔیر
دل میں پودا جو حضوری کا لگایا ہوا ہے
بن کے ذرّہ میں غبارِ رہِ طیبہ تنویر
مدتوں سے دلِ مضطر کو اڑایا ہوا ہے