اس قدر صبر اور رضا والے
ہائے مہمان کربلا والے
جان اُن کی نظر میں کچھ بھی نہ تھی
یہ دکھاتے رہے وفا والے
پیاس ان کو نہ کر سکی مغلوب
خوف ناپید تھے قضا والے
لگ گئی آگ دھوپ کو جیسے
پھر بھی محفوظ تھے ردا والے
اک طرف تھے ہزار ہا ابلیس
اک طرف چند مصطفیٰ والے
خون دے کے بچا رہے تھے دین
کر رہے تھے عطا، عطا والے
آئے گا ان پہ امتحاں گستاخؔ
جو بھی کہلائیں گے خدا والے