اردوئے معلیٰ

Search

آج مشہور و معروف ناول نگار، افسانہ نگار اور تنقید نگار جناب انتظار حسین کا یوم وفات ہے

 

 انتظار حسین(پیدائش: 7 دسمبر 1925ء – وفات: 2 فروری 2016ء)
——
نوٹ ان کی تاریخ پیدائش پر اختلاف پایا جاتا ہے ۔ بعض کے نزدیک ان کی تاریخ پیدائش 21 دسمبر ہے ۔
——
انتظار حسین اردو کے ایک ناول نگار، افسانہ نگار اور تنقید نگار تھے، انہوں نے ایک داستان اور آپ بیتی طرز پر دو کتابیں لکھیں۔ حکومت فرانس نے ان کو ستمبر 2014ء میں آفیسر آف دی آرڈر آف آرٹس اینڈ لیٹرز عطا کیا۔ انتظار حسین کا انتقال 2 فروری 2016ء کو 92 سال کی عمر میں لاہور کے ایک ہسپتال میں ہوا۔
انتظار حسین 7 دسمبر 1925ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ میرٹھ کالج سے بی اے کیا۔ قیام پاکستان کے بعد لاہور میں قیام پزیر ہوئے جہاں جامعہ پنجاب سے ایم اے اردو کرنے کے بعد وہ صحافت کے شعبے سے وابستہ ہو گئے۔ پہلا افسانوی مجموعہ ’’گلی کوچے ‘‘ 1953ء میں شائع ہوا۔ روزنامہ مشرق میں طویل عرصے تک چھپنے والے کالم ’’لاہور نامہ‘‘ کو بہت شہرت ملی۔ اس کے علاوہ ریڈیو میں بھی کالم نگاری کرتے رہے۔ افسانہ نگاری اور ناول نگاری میں ان کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اس کی کتابوں میں سے "بستی” اور "خالی پنجره” کا سمیرا گیلانی نے فارسی میں ترجمہ کیا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : شاعر اور کالم نگار ظفر اقبال کی سالگرہ
——
انتظار حسین اردو افسانے کا ایک معتبر نام ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اسلوب اور بدلتے لہجوں کے باعث پیش منظر کے افسانہ نگاروں کے لیے بڑا چیلنج تھے۔ ان کی اہمیت یوں بھی ہے کہ انہوں نے داستانوی فضا، اس کی کردار نگاری اور اسلوب کا اپنے عصری تقاضوں کے تحت برتاؤ کرنا چاہا۔ ان کی تحریروں کو پڑھ کر حیرت کاایک ریلا سا آتا ہے جس کی بنا پر ان کے سنجیدہ قارئین کے پاؤں اکھڑ جاتے ہیں۔ ان کی خود ساختہ صورت حال حقیقت سے بہت دور ہے۔ اس طرح کی صورت حال تخیل کے حوالے سے یورپ میں سامنے آئی۔
ان کی تحریروں کی فضا ماضی کے داستانوں کی بازگشت ہے۔ ان کے یہاں پچھتاوے، یاد ماضی، کلاسیک سے محبت، ماضی پرستی، ماضی پر نوحہ خوانی اور روایت میں پناہ کی تلاش بہت نمایاں ہے۔ پرانی اقدار کے بکھرنے اور نئی اقدار کے سطحی اور جذباتی ہونے کا دکھ اور اظہار کے ضمن میں بہت سی جگہوں پر انداز اور لب و لہجہ ترش ہو جاتا ہے۔
ان کی تحریروں کی فضا ماضی کے داستانوں کی بازگشت ہے۔ ان کے یہاں پچھتاوے، یاد ماضی، کلاسیک سے محبت، ماضی پرستی، ماضی پر نوحہ خوانی اور روایت میں پناہ کی تلاش بہت نمایاں ہے۔ پرانی اقدار کے بکھرنے اور نئی اقدار کے سطحی اور جذباتی ہونے کا دکھ اور اظہار کے ضمن میں بہت سی جگہوں پر انداز اور لب و لہجہ ترش ہو جاتا ہے۔
انتظار حسین کا فن عوامی نہیں۔ انہوں نے اساطیری رجحان کو بھی اپنی تحریروں کا حصہ بنایا۔ ان کے افسانوں کے اسرار معلوم کرنے کے لیے وسیع مطالعہ کرنا بھی لازمی ہے۔ ہجرت کے حوالے سے ایک خاص طرح کا تناؤ انتظار حسین کے ہاں جاری و ساری ہے۔ اس صورت حال سے وہ خود کو منطقی طور پر الگ نہیں کر سکے۔ انہیں زندگی کی ظاہری بناوٹ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی البتہ باطن میں جو حالت درپیش ہوتی اس کا خیال رکھتے۔ یہی باطن کی غوطہ زنی اور اسلوبیاتی تنوع انتظار حسین کی پہچان ہے۔ لیکن وہ اسے فکری اور نظری پسماندگی کا نام بھی دیتے ہیں۔ ایسے میں وہ فرد کی انفرادی سطح پر اخلاقی جدوجہد کو بے معنی قرار دیتے ہیں۔ یہی موضوعاتی اور اسلوبیاتی سطح وہ مقام ہے جہاں پر انتظار حسین افسانے کے پیش منظر میں داخل ہوتے نظر آتے ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : سفر حضر کی علامتیں ہیں، یا استعارہ ہے قافلوں کا
——
انتظار حسین کا 2 فروری 2016ء کو مختصر علالت کے بعد انتقال ہوا اور 3 فروری کو انہیں سپرد خاک کیا گیا۔
——
تصانیف
——
ناول
آگے سمندر ہے
بستی
چاند گہن
دن۔ (ناولٹ)
افسانے
آخری آدمی
خالی پنجرہ
خیمے سے دور
شہر افسوس
کچھوے
کنکرے
گلی کوچے
آپ بیتی
چراغوں کا دھواں
دلی تھا جس کا نام
دیگر
جل گرجے (داستان)
نظریے سے آگے (تنقید)
ڈرامے
خوابوں کے مسافر
درد کی دوا کیا ہے؟
نفرت کے پردے میں
پانی کے قیدی
——
اعزازات
——
ستارہ امتیاز، حکومت پاکستان کی طرف سے ۔
ستمبر 2014ء، آفیسر آف دی آرڈر آف آرٹس اینڈ لیٹرز، حکومتِ فرانس کی طرف سے ۔
انتظار حسین پاکستان کے پہلے ادیب تھے جن کا نام مین بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا تھا ۔
——
یہ بھی پڑھیں : وہ روشنی ہے علیؓ کی گھر میں فلک سے جو نور بہہ رہا ہے
——
انھیں حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان نے پاکستان کے سب سے بڑ ے ادبی اعزاز کمال فن ادب انعام سے نوازا تھا۔
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ