اندھیرے میں سیہ شب ہوں کسی شب مجھ میں بس بھی
اگر تو ابر ہے تو ٹوٹ کر مجھ پر برس بھی
تجھے تصویر کرنے کی اجازت چاہتا ہوں
ہے میرے پاس ایزل بھی ، برش بھی ، کینوس بھی
میں تیرے دھیان سے کیسے نکل پاتا کہ جب تھے
ترے پابند میرے دائیں بائیں ، پیش و پش بھی
فقط اس کے ہی بالوں سے گلاب اُترے نہیں ہیں
ہوئی عاری گلوں سے میرے دل کی کارنس بھی
سلگتی ریت پر رَم کا بڑا تھا شوق مجھ کو
ذرا اے ریگِ صحرا ! اب مِرے پاؤں جھلس بھی
ہوائے شہر کے تیور بدلتے جا رہے ہیں
محبت کے لبادوں میں جنم لے گی ہوس بھی
سفر کی چاہ ہے تو نوچ مت اپنے پروں کو
نہ دیں گے ساتھ تیرا بے پری میں ہم قفس بھی
سپیرے نے پٹاری کھول دی یہ کہہ کے اشعرؔ
مجھے نیلا فلک ہونا ہے کالے ناگ ڈس بھی