اردوئے معلیٰ

Search

آج اردو کے مشہور ناول نگار، شاعر، ڈراما نویس اور افسانہ نگار منٹو کے ہم عصر اوپندر ناتھ اشک کا یومِ وفات ہے۔

 

اوپندر ناتھ اشک(پیدائش:14 دسمبر 1910ء – وفات: 19 جنوری 1996ء)
——
اوپندر ناتھ اشک 14 دسمبر 1910ء کو جالندھر، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔
1930ء تک لاہور میں رہائش پذیر رہے، بعد ازاں ہندوستان منتقل ہو گئے۔
ادبی زندگی کی ابتدا پنجابی شاعری سے کی۔ بعد ازاں اردو کو ذریعۂ اظہار بنایا۔
ان کی پہلی نظم 1926ء میں شائع ہوئی۔ ان کا پہلا ہندی کہانیوں کا مجموعہ "جدائی کی شام کے گیت” لاہور سے شائع ہوا۔
ہندوستان میں مختلف اخبارات و رسائل کے لیے تحریریں لکھتے رہے۔ 1941ء سے 1945ء تک کا عرصہ آل انڈیا ریڈیو میں گزارا۔ بمبئی میں رہائش اختیار کرنے کے بعد فلم کی جانب راغب ہوئے اور کئی فلموں کی کہانیاں اور اسکرین پلے تحریر کئے۔ اس کے علاوہ دوستوفسکی اور اونیل کے شاہکار تراجم بھی آپ کے حصے میں آئے۔ کچھ عرصے بعد الہ آباد منتقل ہوگئے۔ وہاں نیلاب پرکاش کے نام سے اشاعتی ادارہ قائم کیا۔ اوپندر ناتھ اشک اپنی تحریروں میں پنجاب کی روزمرہ دیہی زندگی کی عکاسی بڑے خوبصورت انداز میں کرتے ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر جگن ناتھ آزادؔ کا یومِ وفات
——
اشک کے افسانوں میں پاپی، کونپل، پلنگ اور ڈراموں میں چھٹا بیٹا، انجو دیدی اور قید بہت مشہور ہوئے۔
——
تصانیف
——
افسانے
عورت کی فطرت
پلنگ
قفس
پرواہے
کونپل اور دوسرے افسانے
——
ڈرامے
پاپی
چھٹا بیٹا
انجو دیدی
قید بہت
بھنور
اڑان
الگ الگ راستے
——
ناول
گرتی دیواریں
ستاروں کے کھیل
گرم راکھ
بڑی بڑی آنکھ
——
شاعری
دیپ جلے گا
چاندنی رات اور اجگر
——
اوپندر ناتھ اشک کو 1965ء میں سنگیت ناٹک اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف ادیب سید الطاف علی بریلوی کا یوم وفات
——
اوپندر ناتھ اشک 19 جنوری 1996ء کو الہ آباد، اترپردیش میں 85 سال کی عمر میں وفات پا گئے
——
افسانہ ” محبت ” سے اقتباس
——
رات کتنی ہی بیت چکی ہے۔ لیکن مجھے بالکل نیند نہیں۔ دل میں ایک ہیجان سا برپا ہے۔ ایک آگ سی لگی ہوئی ہے اور جی چاہتا ہے اس آگ کی لپٹوں کو سب طرف پھیلا دوں تاکہ ظلم اور جور کی قوتیں پلک جھپکتے جل بھن کر راکھ ہو جائیں۔ تم شاید حیران ہوگے کہ میں آج یہ سب کیا بک رہا ہوں؟ لیکن آنند تم کیا جانو کہ میرے خیالات میں انقلاب برپا ہو چکا ہے۔ میرا خیال تھا کہ میں کلکتے سےاچھی طرح واقف ہوں۔ کلکتہ میرے لیے نیا نہیں۔ بیسیوں دفعہ انگریزی سلطنت کے اس دوسرے بڑے شہر میں آیا ہوں۔ لیکن اندرناتھ نے اس کلکتے میں جوچیزیں دکھائیں ان کاخواب میں بھی خیال نہ تھا۔
آج میں نے وہ خفیہ تہ خانے دیکھے ہیں جہاں پلاسی کی لڑائی میں ہار کر نواب سراج الدولہ کچھ دنوں کے لیے آچھپے تھے۔ تاریخ میں ان کا ذکر نہیں، لیکن دیکھنے پر یہی معلوم ہوتا جیسے نواب ابھی ابھی یہاں سےگئے ہیں۔ کلکتہ کے نواح کے ٹوٹے پھوٹے مکان میں اندرناتھ کے ایک دوست رہتے ہیں۔ وہ کیوں وہاں رہتے ہیں۔ یہ میں نہیں جانتا، شاید غریب ہیں، اور کلکتہ کے کرایہ کا بار نہیں اٹھا سکتے۔ ہم ان سے ملاقات کرنے گئے، تبھی باتوں باتوں میں اندرناتھ نے ان تہ خانوں کا ذکر کیا اور جب میں نے اصرار کیا تو وہ مجھے وہاں لے گیا۔
——
یہ بھی پڑھیں : جگن ناتھ آزاد کا یومِ پیدائش
——
ایک ٹوٹا پھوٹا سا دالان تھا۔ اس میں سے ہوتے ہوئے ایک دو غلام گردشوں کو طے کر کے ہم ایک تاریک کمرے میں پہنچے۔ اندر ناتھ کے دوست کانام ’مکرجی‘ہے۔ انہوں نےایک دروازہ کھولا اور ہم سیڑھیاں اتر کر تہ خانہ میں جا پہنچے۔ اس جگہ گھپ اندھیرا تھا۔ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ مجھے اندر ناتھ پر اتنا ہی اعتماد تھا جتنا اپنی ہستی پر۔ لیکن نہ جانے کیوں، دل جیسےدھنسا جا رہا تھا۔ تاریکی میں مکرجی نے ایک کھٹکا سا دبایا۔ سامنے کی دیوار میں ایک دروازہ کھل گیا اور ایک لمبی گیلری نظر آئی۔ جس کے دوسرے سرے سے روشنی کی شعائیں اس کے نصف حصہ کو روشن کر رہی تھیں۔ گیلری سے گزر کر ہم تہ خانہ میں پہنچے۔ یہ تہ خانہ کافی روشن تھا اور ہوا بھی یہاں جانے کہاں سے آ رہی تھی۔ میں نے پوچھا تو اندر ناتھ نے کہا، ’’اس کابھی انتظام ہے۔‘‘
فرش پر دیسی قسم کے غالیچے بچھےہوئے تھےاور پرانا فرنیچر رکھا تھا، جو بہت کچھ خستہ اور بوسیدہ ہوگیا تھا۔ دیواروں پر پرانی قسم کے نقش و نگار تھے۔ جب میں نے پوچھا تو اندرناتھ نے بتایا کہ یہ شاہی تہ خانے ہیں۔ یہ ان میں سے پہلا ہے، ابھی دوسرے میں جائیں گے۔ نواب سراج الدولہ نےاپنی پریشان زندگی کے کچھ ایام یہیں بسر کیے تھے۔ کمرے میں چاروں طرف اسی زمانہ کی تصویریں لگی ہوئی تھیں، جب کلائیو کی حکمت عملی اور چالاکی اور میر جعفر اور اماچند کی غداری نے ہندوستان کے پاؤں میں پہلی بیڑی ڈال دی تھی۔ ایک تصویر میں اماچند کلائیو سے ساز باز کر رہا تھا۔ دوسری میں فریب مجسم کلائیو امیر البحر واٹسن سے جعلی معاہدہ پر دستخط کرانے کے لیے اصرار کر رہا تھا، جس میں اماچند کو تین لاکھ روپیہ دینے کی کوئی شرط نہ تھی۔
پھر کچھ اور تصاویر پلاسی کے میدان جنگ، نواب کی شکست اور میرجعفر کی گدی نشینی کی لگی ہوئی تھیں۔ لیکن ان میں ایک تصویر ایسی تھی جس نےمیری توجہ خاص طور پر اپنی طرف مبذول کرلی۔ یہ تھی ایک پاگل کی تصویر۔ دیوانہ سر اور پاؤں سے بالکل برہنہ تھا۔ سر کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ داڑھی بڑھ کر خوفناک ہو رہی تھی اور اس پر گرد پڑی ہوئی تھی۔ جسم پر جگہ جگہ سے خون نکل رہاتھا، جو اس نے دیوانگی کے عالم میں کھرونچ کھرونچ کر نکال لیا تھا۔ تصویر کے نیچے لکھا ہواتھا، ’’قوم فروش اماچند۔‘‘
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ