اپنی مشکل کو یوں آسان کیا جاتا ہے
جا تجھے راندہء دیوان کیا جاتا ہے
خوش نصیبوں کو عطا ہوتا ہے یہ رزق طلب
عشق ہر اک کو کہاں دان کیا جاتا ہے
کلمہ وصل تجھے ایسے پڑھاؤں صاحب
جیسے کافر کو مسلمان کیا جاتا ہے
میں تو خوش باش دکھائی بھی نہیں دیتی ہوں
صرف جی لینے کا سامان کیا جاتا ہے
کاش وہ وقت بھی آئے کہ کہے حاکم وقت
اب ہر اک شہر کو ملتان کیا جاتا ہے
آ مری مرگ پہ ماتم کی اجازت ہے تجھے
زندہ لاشوں کا بھی ارمان کیا جاتا ہے
مدتوں ان کے خسارے ہی نہیں جاتے ہیں
اپنے ہاتھوں سے جو نقصان کیا جاتا ہے
میرے اندر جو مری میں ، تو بتانے دو ناں
مرنے والوں کا تو اعلان کیا جاتا ہے