ایک مدت سے مرے دل میں بسی ہے آرزو
در پہ وہ اپنے بلائیں بس یہی ہے آرزو
میں ہواؤں میں اڑا پھرتا ہوں خوشیوں میں مگن
جب سے دیدارِ محمد بن گئی ہے آرزو
میں مریضِ عشق ہوں اور ہوں قریب المرگ بھی
خاک پائے مصطفے ہی بس مری ہے آرزو
ان سے کہنا در پہ مجھ کو بھی بلا لیں وہ کبھی
ہر مسافر سے ہی یہ میں نے کہی ہے آرزو
ہے یقیں در سے محمد کے ملے گی یہ ضرور
اس لئے بس اس لئے ہی روشنی ہے آرزو
روزِ محشر بس پکارا جاؤں میں ان کا غلام
آخری ہے آخری ہے آخری ہے آرزو
عالمِ سکرات میں دیدار ہو جائے نصیب
اب دلِ تنویر کی یہ آخری ہے آرزو