اے فکر سنور اور اے اسلوب نکھر اور
کہنی ہے مجھے نعت بانداز دگر اور
ہر لحظہ نئی شان ہے محبوب خدا کی
زلف اور پھبن اور ادا اور نظر اور
دیتی ہے، ہر اک شے تری عظمت کی گواہی
ہیں وادی بطحا کے شجر اور حجر اور
ان کو بھی ترے عفو فراواں نے نوازا
جو لوگ کہ ہوتے تھے ادھر اور ادھر اور
جو آنکھ تری یاد میں خوں نابہ فشاں ہے
کیا چاہئیں اس کو بھی کوئی لعل و گہر اور
واں پگلا سا انساں ہے یاں پگھلا ہوا انساں
’’کعبہ کا اثر اور ہے طیبہ کا اثر اور‘‘
یہ آخری منزل ہے سلوک اور ہدیٰ کی
مت ڈھونڈ مدینے میں کوئی راہگزر اور
میں تیری طرف ایک قدم آ تو گیا ہوں
اے رحمت حق تو بھی بلندی سے اتر اور
میں ختم ہوا چاہتا ہوں آتش غم سے
اے ابر کرم! جلد برس، دیر نہ کر اور