اردوئے معلیٰ

Search

آج بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان کا یوم پیدائش ہے

 مولانا ظفر علی خان(پیدائش: 19 جنوری 1873ء – وفات: 27 نومبر 1956ء)
——
مولانا ظفر علی خان معروف مصنف، شاعر اور صحافی گزرے ہیں جو تحریک پاکستان کے اہم رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ کو بابائے اردو صحافت کہا جاتا ہے۔ آپ نے لاہور سے معروف اردو اخبار زمیندار جاری کیا۔ انہوں نے 1935ء میں شہید گنج مسجد لاہور کو گردوارہ بنانے کے خلاف نیلی پوش تحریک بھی چلائی۔ حمیدہ بیگم آپ کی سگی ہمشیرہ تھیں۔
——
ابتدائی حالات
——
مولانا ظفر علی خان19 جنوری، 1873ء میں کوٹ میرٹھ شہر وزیر آباد میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم مشن ہائی اسکول وزیر آباد سے مکمل کی اور گریجویشن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے کی۔ کچھ عرصہ وہ نواب محسن الملک کے معتمد (Secretary) کے طور پر بمبئی میں کام کرتے رہے۔ اس کے بعد کچھ عرصہ مترجم کی حیثیت سے حیدرآباد دکن میں کام کیا اور محکمہ داخلہ (Home Department) کے معتمد کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ اخبار "دکن ریویو” جاري كيا اور بہت سی کتابیں تصنیف کرکے اپنی حیثیت بطور ادیب و صحافی خاصی مستحکم کی۔
——
زمیندار کی ادارت
——
1908ء میں لاہور آئے، روزنامہ زمیندار کی ادارت سنبھالی جسے ان کے والد مولوی سراج الدین احمد نے 1903ء میں شروع کیا تھا۔ مولانا کو "اردو صحافت کا امام” کہا جاتا ہے اور زمیندار ایک موقع پر پنجاب کا سب سے اہم اخبار بن گیا تھا۔ زمیندار ایک اردو اخبار تھا جو بطور خاص مسلمانوں کے لیے نکالا گیا تھا۔
——
یہ بھی پڑھیں : ممتاز شاعر جناب یوسف ظفر کا یوم وفات
——
اس اخبار نے مسلمانوں کی بیداری اور ان کے سیاسی شعور کی تربیت کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا باوجود اس حقیقت کے کہ اس کی اشاعت محدود تھی اور مسلمانوں کے پاس نہ صنعت تھی نہ تجارت جس کی وجہ سے اشتہارات کی تعداد اتنی کم تھی کہ اخبار کو چلانا جان جوکھوں کا کام تھا۔ بعض اوقات ایسی صورت بھی پیدا ہو جاتی تھی کہ عملے کو تنخواہ دینے کے لیے پیسے بھی نہیں ہوتے تھے۔
——
کامریڈ اور زمیندار
——
مولانا نے صحافیانہ زندگی کی شروعات انتہائی دشوار گزار اور ناموافق حالات میں کی۔ اس زمانے میں لاہور اشاعت کا مرکز تھا اور تینوں بڑے اخبار پرتاب، محراب اور وی بھارت ہندو مالکان کے پاس تھے۔ اسی دور میں مولانا اور زمیندار نے تحریک پاکستان کے لیے بے لوث خدمات انجام دیں۔ کامریڈ (مولانا محمد علی جوہر کا اخبار ) اور زمیندار دو ایسے اخبار تھے جن کی اہمیت تحریک پاکستان میں مسلم ہے اور دونوں کے کردار کو بیک وقت تسلیم کیا جانا چاہیے۔ 1934ء میں جب پنجاب حکومت نے اخبار پر پابندی عائد کی تو مولانا ظفر علی خان جو اپنی جرات اور شاندار عزم کے مالک تھے انہوں نے حکومت پر مقدمہ کر دیا اور عدلیہ کے ذریعے حکومت کو اپنے احکامات واپس لینے پر مجبور کر دیا۔ اگلے دن انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور ایک طویل نظم لکھی جس کے ابتدائی اشعار یہ ہیں
——
یہ کل عرش اعظم سے تار آگیا
زمیندار ہوگا نہ تا حشر بند
تری قدرت کاملہ کا یقین
مجھے میرے پروردگار آگیا
——
زمیندار اور پنجاب
——
"جدید مسلم ہندوستان اور قیام پاکستان” (Modern Muslim India and the Birth of Pakistan) میں ڈاکٹر ایس ایم اکرام لکھتے ہیں
” وہ جوان ، زور آور اور جرات مند تھے اور نئے سیاسی اطوار کا پرجوش انداز میں سامنا کیا۔ ان کی ادارت میں زمیندار شمالی ہند کا سب سے اثر انگیز اخبار بن گیا اور خلافت تحریک میں ان سے زیادہ فعال کردار صرف علی برادران اور مولانا ابو الکلام آزاد ہی تھے۔ “
یہ بات قابل ذکر ہے کہ پنجاب پاکستان کا واحد صوبہ تھا جس نے اردو کو اپنی زبان کے طور پر اپنایا اور اسے کام کی زبان بنایا باوجود اس کے کہ پنجابی اس صوبے کی مادری زبان ہے اور سب سے زیادہ بولی جاتی ہے۔ پنجابی کا اصل رسم الخط گورمکھی کو مسلمانوں نے اس لیے نہیں اپنایا کہ یہ سکھ مذہب سے جڑا ہوا تھا۔ اس طرح اردو انگریزی کے ساتھ پنجاب کی اہم لکھی جانے والی زبان بن گئی اور دونوں تقریبا ایک جتنی مقدار میں سرکاری اور تعلیمی زبان کے طور پر استعمال ہوتی رہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : شاعر اور کالم نگار ظفر اقبال کی سالگرہ
——
پنجاب کے دانشوروں، لکھاریوں، شاعروں اور صحافیوں نے، جن میں سر فہرست علامہ اقبال اور مولانا ظفر علی خان تھے، اردو کی زلف گرہ گیر کو محبت اور توجہ سے اس طرح سنوارا کہ وہ صوبے کی لاڈلی زبان بن گئی۔ دلی اور لکھنؤ کے بعد پنجاب نے اردو کی ترقی و ترویج میں انتہائی اہم اور کلیدی کردار ادا کیا۔ اس ضمن میں کتاب”پنجاب میں اردو” از حافظ محمود شیرانی بہت معلوماتی اور علمی تحقیق سے مزین ہے۔
——
نیلی پوش تحریک
——
ظفر علی خان نے 8 جولائی 1935ء کو شہید گنج مسجد لاہور کو گردوارہ بنانے کے خلاف نیلی پوش تحریک چلائی۔ اس تحریک میں ان کی جماعت نے نیلا لباس پہن رکھا تھا اس لیے اسے نیلی پوش کا نام ملا تھا۔
——
تصانیف
——
مولانا ظفر علی خان غیر معمولی قابلیت کے حامل خطیب اور استثنائی معیار کے انشا پرداز تھے۔ صحافت کی شاندار قابلیت کے ساتھ ساتھ مولانا ظفر علی خان شاعری کے بے مثال تحفہ سے بھی مالا مال تھے۔ ان کی نظمیں مذہبی اور سیاسی نکتہ نظر سے بہترین کاوشیں کہلاتی ہیں۔ وہ اسلام کے سچے شیدائی، محب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اپنی نعت گوئی کے لیے مشہور و معروف ہیں۔ ان کی شاعرانہ کاوشیں بہارستان، نگارستان اور چمنستان کی شکل میں چھپ چکی ہیں۔ ان کی مشہور کتابیں درج ذیل ہیں:
——
معرکہ مذہب و سائنس
غلبہ روم
سیر ظلمت
جنگ روس و جاپان
——
وہ میلہ رام وفا کی شاعری سے بہت متاثر تھے اور ایک نوآموز شاعر کو میلہ رام کا شعر سنا کر نصیحت بھی کیا کرتے تھے:
——
توڑتا ہے شاعری کی ٹانگ کیوں اے بے ہنر!
جا سلیقہ شاعری کا سیکھ میلہ رام سے
——
وفات
——
مولانا ظفر علی خان نے 27 نومبر، 1956ء کو وزیرآباد کے قریب اپنے آبائی شہر کرم آباد میں وفات پائی۔ ان کی نمازِ جنازہ محمد عبد الغفور ہزاروی نے ادا کی۔
——
جس ہشت صفات (صحافی‘ مترجم‘ نثر نگار‘ مقرر‘ سیاستدان) شخصیت کے بارے میں حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی درج ذیل رائے ہے اس کی عظمت اور اس کے جامع صفات ہونے میں کون شبہ کر سکتا ہے۔
”ظفر علی خاں کے قلم میں مصطفیٰ کمال کی تلوار کا بانکپن ہے۔ انہوں نے مسلمانانِ پنجاب کو نیند سے جھنجوڑنے میں بڑے بڑے معرکے سر کئے ہیں۔ پنجاب کے مسلمانوں میں سیاسی بیداری اور جوش ایمانی پیدا کرنے کا جو کام مولانا ظفر علی خاں نے انجام دیا وہ تو مثالی ہے ہی لیکن اس سے ہٹ کر دیکھا جائے تو برصغیر کی تمام قومی و ملکی تحریکیں ان کے عزم عمل کی مرہون منت نظر آئیں گی اور سیاسی و صحافتی شعر و ادب تو گویا انہی کی ذات سے عبارت ہو کر رہ گیا ہے“
——
یہ بھی پڑھیں : آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا یوم وفات
——
مولانا ظفر علی خاں کی صحافتی اور سیاسی شاعری، ان کی غیر معمولی دماغی صلاحیتوں، تحریک حریت میں ان کے جرات مندانہ کردار، ان کا اردو صحافت میں خود ایک دبستان اور درسگاہ کی حیثیت اختیار کر جانا، جنگ آزادی پاکستان میں ان کا بہادر مجاہد کی طرح انگریز حکمرانوں کو للکارنا اور آزادی تقریر و تحریر کے جرم میں طویل عرصہ تک قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کرنا یہ سب وہ حقائق ہیں جس سے مولانا ظفر علی خاں کا بڑے سے بڑا سیاسی مخالف بھی انکار نہیں کر سکتا لیکن ہم نے بطور قوم مولانا ظفر علی خاں کو وہ مقام نہیں دیا اور وہ قدر نہیں کی جس کے وہ ہر لحاظ سے حقدار تھے۔ مولانا ظفر علی خاں کی ہشت پہلو شخصیت پر لکھنا تو کئی کتب کا موضوع اور مواد بن سکتا ہے لیکن میں اس مختصر کالم میں صرف ان کے منتخب اور قابل حوالہ اشعار پیش کرنا چاہتا ہوں جس سے ان کی زبان دانی اور قادرالکلامی کا ہماری آج کی نئی نسل کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔
مولانا ظفر علی خاں کی بے نظیر اور دل و دماغ پر نقش ہو جانے والی شاعری کو خواجہ حسن نظامی نے الہام کا نام دیا تھا اور مولانا سلیمان ندوی تو ظفر علی خاں کو اردو کے صرف تین کامل الفن شاعروں میں سے ایک تسلیم کرتے تھے۔
داغ دہلوی جیسے استاد اور باکمال شاعر کی یہ رائے تھی کہ پنجاب نے ظفر علی خاں اور اقبال کو پیدا کرکے اپنے ماضی کی تلافی کر دی ہے۔
سرسید، علامہ شبلی اور الطاف حسین حالی نے بھی اپنے اپنے انداز میں ظفر علی خاں کے کام اور صلاحیتوں کا اعتراف کیا ہے۔
شورش کاشمیری نے صحافت اور شاعری میں اپنے استاد ظفر علی خاں کو اقلیم انشاء کے شہنشاہ اور میدانِ شعر کے شہسوار کا خطاب دیا تھا اور سب سے بڑھ کر خود مولانا ظفر علی خاں کے بے مثال اشعار ان کے کمال سخن کے گواہ ہیں۔
——
منتخب کلام
——
پہنچتا ہے ہر اک مے کش کے آگے دورِ جام اس کا
کسی کو تشنہ لب رکھتا نہیں ہے لطفِ عام اس کا
سراپا معصیت میں ہوں، سراپا مغفرت وہ ہے
خطا کوشی روش میری، خطا پوشی ہے کام اس کا
——
ظفر علی خاں کی نعتوں کے غیر فانی اشعار
——
دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہی تو ہو
ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمہی تو ہو
——
اے خاور حجاز کے رخشندہ آفتاب
صبحِ ازل ہے تیری تجلی سے فیض یاب
——
وہ شمع اجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں
اک روز جھلکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں
جو فلسفیوں سے کھل نہ سکا اور نکتہ وروں سے حل نہ ہوا
وہ راز اک کملی والے نے بتلا دیا چند اشاروں میں
——
ہوتا ہے جن میں نامِ رسولِ خدا بلند
ان محفلوں کا مجھ کو نمائندہ کر دیا
سردارِ دوجہاں کا بنا کر مجھے غلام
میرا بھی نام تا بہ ابد زندہ کر دیا
——
زکوٰة اچھی، حج اچھا، روزہ اچھا اور نماز اچھی
مگر میں باوجود اس کے مسلماں ہو نہیں سکتا
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثرب کی عزت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں ہو سکتا
——
ظفر علی خاں کے متفرق مگر ضرب المثل اشعار
——
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا
——
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
——
سلیقہ مے کشی کا ہو تو کر لیتی ہے محفل میں
نگاہِ مستِ ساقی مفلسی کا اعتبار اب بھی
——
یہ بھی پڑھیں : آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا یوم پیدائش
——
قلم سے کام تیغ کا اگر کبھی لیا نہ ہو
تو مجھ سے سیکھ لے فن اور اس میں بے مثال بن
——
کرانا ہے قلم ہاتھوں کو، رودادِ جنوں لکھ کر
تو اس دور ستم پرور میں میرا ہم قلم ہو جا
——
نکل جاتی ہو سچی بات جس کے منہ سے مستی میں
فقیہہِ مصلحت بیں سے وہ رندِ بادہ خوار اچھا
——
آپ کہتے ہیں پرایوں نے کیا ہم کو تباہ
بندہ پرور کہیں اپنوں ہی کا یہ کام نہ ہو
——
نہ یزید کا وہ ستم رہا نہ زیاد کی وہ جفا رہی
جو رہا تو نام حسین کا جسے زندہ رکھتی ہے کربلا
——
ہندوستان
ناقوس سے غرض ہے نہ مطلب اذاں سے ہے
مجھ کو اگر ہے عشق تو ہندوستاں سے ہے
تہذیب ہند کا نہیں چشمہ اگر ازل
یہ موج رنگ رنگ پھر آئی کہاں سے ہے
ذرے میں گر تڑپ ہے تو اس ارض پاک سے
سورج میں روشنی ہے تو اس آسماں سے ہے
ہے اس کے دم سے گرمئی ہنگامۂ جہاں
مغرب کی ساری رونق اسی اک دکاں سے ہے
——
انقلاب ہند
بارہا دیکھا ہے تو نے آسماں کا انقلاب
کھول آنکھ اور دیکھ اب ہندوستاں کا انقلاب
مغرب و مشرق نظر آنے لگے زیر و زبر
انقلاب ہند ہے سارے جہاں کا انقلاب
کر رہا ہے قصر آزادی کی بنیاد استوار
فطرت طفل و زن و پیر و جواں کا انقلاب
صبر والے چھا رہے ہیں جبر کی اقلیم پر
ہو گیا فرسودہ شمشیر و سناں کا انقلاب
——
محبت
کرشن آئے کہ دیں بھر بھر کے وحدت کے خمستاں سے
شراب معرفت کا روح پرور جام ہندو کو
کرشن آئے اور اس باطل ربا مقصد کے ساتھ آئے
کہ دنیا بت پرستی کا نہ دے الزام ہندو کو
کرشن آئے کہ تلواروں کی جھنکاروں میں دے جائیں
حیات جاوداں کا سرمدی انعام ہندو کو
اگر خوف خدا دل میں ہے پھر کیوں موت کا ڈر ہو
کرشن آئیں تو اب بھی دیں یہی پیغام ہندو کو
مسلمانوں کے دل میں بھی ادب ہے ان حقائق کا
سکھاتا ہے یہی سچائیاں اسلام ہندو کو
وہ میرے جذبۂ دل کی کشش کا لاکھ منکر ہو
محبت سے میں آخر کر ہی لوں گا رام ہندو کو
——
خمستانِ ازل کا ساقی
پہنچتا ہے ہر اک مے کش کے آگے دور جام اس کا
کسی کو تشنہ لب رکھتا نہیں ہے لطف عام اس کا
گواہی دے رہی ہے اس کی یکتائی پہ ذات اس کی
دوئی کے نقش سب جھوٹے ہیں سچا ایک نام اس کا
ہر اک ذرہ فضا کا داستان اس کی سناتا ہے
ہر اک جھونکا ہوا کا آ کے دیتا ہے پیام اس کا
میں اس کو کعبہ و بت خانہ میں کیوں ڈھونڈنے نکلوں
مرے ٹوٹے ہوئے دل ہی کے اندر ہے قیام اس کا
مری افتاد کی بھی میرے حق میں اس کی رحمت تھی
کہ گرتے گرتے بھی میں نے لیا دامن ہے تھام اس کا
وہ خود بھی بے نشاں ہے زخم بھی ہیں بے نشاں اس کے
دیا ہے اس نے جو چرکا نہیں ہے التیام اس کا
نہ جا اس کے تحمل پر کہ ہے اب ڈھب گرفت اس کی
ڈر اس کی دیر گیری سے کہ ہے سخت انتقام اس کا
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ