شاخِ شب پر کوئی مہتاب شگوفہ پُھوٹا
اور مہک پھیل گئی سرمئی خاموشی کی
آسمان سے کوئی بے نام ستارہ ٹُوٹا
نیم خوابیدہ شجر نے کوئی سرگوشی کی
چاند خاموش تھا، یک لخت صدا دینے لگا
کروٹیں لیتی ہوئی نیند سے بیدار ہوئی
وقت یکدم کسی آہٹ کا پتہ دینے لگا
دامنِ کوہ سے بدلی سی نمودار ہوئی
گھور گھنگور گھٹا لائی گھنیرے بادل
مہرباں پانی گلی کُوچوں میں ٹِپ ٹِپ برسا
دل کے اُس پار ہوئی کوئی عجب سی ہلچل
اور رگ و پَے میں تری یاد کو کوندا لپکا