بندہ تیرا دراصل گناہ گار بہت ہے
یہ بھی تو حقیقت ہے تو غفار بہت ہے
سبقت تیری رحمت کو ہے جب تیرے غضب پر
تو ڈھانپ لے رحمت میں تو ستار بہت ہے
تو مجھ پر کرم کر تو جہنم سے بچا لے
اس بندہ پہ ہلکی سی بھی اک مار بہت ہے
ہے دل سے یہ اقرار کہ تو رب ہے حقیقی
سب جھوٹے خداؤں کا تو دربار بہت ہے
تو خالق کونین ہے تو مالک کونین
یہ سچ ہے کہ تو واقفِ اسرار بہت ہے
تو نے مجھے ہر طرح کی نعمت سے نوازا
بندہ ترے احساں سے گرانبار بہت ہے
تا عمر رہا میں تری توحید کا قائل
دل شرک سے اور کفر سے بیزار بہت ہے
جنت میں نگاہوں کو تو دے طاقتِ بیدار
ہر لمحہ یہاں حسرتِ دیدار بہت ہے
شیطان کے ہر اک مکر سے تو مجھ کو بچا لے
دھوکہ دیا آدم کو وہ مکار بہت ہے
انعام بہت ہے ترا، ہو کیسے ترا شکر
یہ ایک. زباں کے لئے دشوار بہت ہے
کرتا ہے مناجات نسیم اپنے خدا سے
ہے دل کی صدا اس کے جو بیمار بہت ہے