اردوئے معلیٰ

Search

تِرے علاقوں پہ یار قبضہ بزورِ طاقت نہیں کرینگے

سو دِل کو جیتے بغیر تُجھ پر کبھی حُکُومت نہیں کریں گے

 

رہِ طلب میں وہ دیکھو ہم سے فقیر لوگوں کی بے نیازی

کسی سے ہو بھی گئی محبت، تو اُس کی منت نہیں کریں گے

 

ہمیں نہ حُوروں سے کوئی مطلب، نہ جُوئے شِیر و شکر کا لالچ

بغیر تیرے جو مِل رہی ہو، قبول جنّت نہیں کرینگے

 

چلو کہ دل کا مدینہ در کھولے آج اشکوں کا منتظِر ہے

پڑا ہے آنکھوں کا خُشک مکّہ، تو کیا یہ ہجرت نہیں کریں گے؟

 

بھلے تم اندر کی نفرتوں کا یزید باہر نکال لاؤ

ہم اہلِ دِل ہیں حُسین جیسے، تمہاری بیعت نہیں کرینگے

 

اے میر جعفر! تم ایسٹ انڈیا سے چند پیسوں میں بِک گئے ہو

یہ تم کو دولت بھی دیں گے لیکن تمہاری عزّت نہیں کرینگے

 

تِری مُحبت میں لڑتے لڑتے، جو چند عُشّاق بچ گئے ہیں

یہ مُٹھّی بھر ہیں، قسم خُدا کی مگر بغاوت نہیں کرینگے

 

اور اب تُو آخر میں جان لے لے، کہ اِس میں تیری ہی بہتری ہے

جو تیرے ہاتھوں سےبچ گئے ہم تو پھر رعایت نہیں کرینگے

 

ہمارا لاشہ ہے سر بُریدہ، ہمارے بازو بھی کٹ چکے ہیں

مگر یہ قاتِل کہ ہم کو چُھونے کی اب بھی ہمّت نہیں کرینگے

 

اسی پہ عامِر امیر و فرہاد و مجنوں کو دی گئی اجازت

کہ کیا کریں گے یہ خاک تینوں؟ اگر محبت نہیں کریں گے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ