تھکن سے جب بدن ٹوٹے گا تو آرام کر لیں گے
ابھی دن ہے جہاں سورج ڈھلے گا شام کر لیں گے
ہمیں اپنے ارادوں کی ثباتی پر بھروسہ ہے
ہم اپنی منزلوں کے راستوں کو رام کر لیں گے
چراغِ زیست کی افسانویت کے جو قائل ہیں
وہی اندھے خنک جھونکوں کو اپنے نام کر لیں گے
کبھی ہم میں طلب جاگی اگر بادہ گساری کی
لہو کو مے سمجھ لیں گے ، بدن کو جام کر لیں گے
کسی دن لوٹ آئیں گے اچانک شہرتوں سے ہم
تِری خواہش پہ اپنے آپ کو گمنام کر لیں گے
ابھی تو برسرِ پیکار رہنا ہے ہمیں خود سے
کبھی مہلت ملے گی تو ادھورے کام کر لیں گے
کسی تذلیل سے پہلے جدا ہو جائیں گے اشعرؔ
اُسے آغاز سونپا تھا تو ہم انجام کر لیں گے