تیرا اقرار چاہیے ہے مجھے
اور ہر بار چاہیے ہے مجھے
تیری تصویر ٹانگنے کے لیے
ایک دیوار چاہیے ہے مجھے
میں ادھورا ہوں اور کہانی میں
تیرا کردار چاہیے ہے مجھے
مجھ کو رکنا نہیں ہے اب لیکن
تیرا اصرار چاہیے ہے مجھے
چاہتیں بانٹنے کو نکلا ہوں
بس ترا پیار چاہیے ہے مجھے
باغ میں پھول کھل رہے ہوں جب
تیرا دیدار چاہیے ہے مجھے
آج کی شام کتنی بوجھل ہے
کوئی میخوار چاہیے ہے مجھے
تیری رائے سے اختلاف نہیں
کھل کے اظہار چاہیے ہے مجھے
خواب کو دیکھنا ہے پوری طرح
آنکھ بیدار چاہیے ہے مجھے
پھول کاغذ پہ خود بنا لوں گا
صرف مہکار چاہیے ہے مجھے