اردوئے معلیٰ

Search

 

جبینِ خامہ حضورِ اکرم کے سنگِ در پر جھکائے راکھوں

حسین لفظوں کی کہکشائیں برائے سرور سجائے راکھوں

 

قلم سے نوشابۂ عقیدت ہمیشہ جاری رہے الٰہی

ازل کی تشنہ سماعتوں کو جمیل ساغر پلائے راکھوں

 

اگرچہ شایانِ شانِ پاپوشِ پائے اقدس نہیں ہیں لیکن

یہ آرزو ہے کہ ان کی راہوں میں اپنی پلکیں بچھائے راکھوں

 

ندامتوں سے نظر اٹھانا محال ہے ان کے آستاں پر

سنہری جالی کی خوشنمائی پہ کیسے نظریں جمائے راکھوں

 

مرا تصور رہے ہمیشہ قدومِ آقا میں دست بستہ

میں اپنی سوچوں کو باندیاں کر کے سنگِ در پر بٹھائے راکھوں

 

تمہاری لطف و کرم کی عادت نے میرے کانوں میں کہہ دیا ہے

چراغِ امید اپنی آنکھوں کے طاقچوں میں جلائے راکھوں

 

نعوت رکھنا مرے کفن میں مرے وصایا میں درج کر لو

لحد میں آئیں جو شاہِ عالم تو ان کو پڑھ کر سنائے راکھوں

 

تصوراتی حرا ہو اشفاقؔ میرے سینے کے بام و در میں

حریمِ دل کے گداز گوشوں میں ان کی صورت بسائے راکھوں

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ