اردوئے معلیٰ

Search

غنی ہے عرف، تو پیارا خطاب ذُوالنُّورَینؓ

وہ زَوجِ دُختِ رسالت مآب ذُوالنُّورَینؓ

 

عجیب شان کہ دو بیٹیوں کے زَوج بنے٭۱

مرے نبی کا حسیں انتخاب ذُوالنُّورَینؓ

 

حیا و حلم کا پیکر تھے حضرتِ عثماںؓ

اسی لیے تو ہوئے آنجناب، ذُوالنُّورَینؓ

 

نبی کی اور بھی ہوتیں جو دُخترانِ طہیر٭۲

تو زَوج ان کے بھی بنتے جناب ذُوالنُّورَینؓ

 

خود اپنے گھر میں غنیمت کے مستحق ٹھہرے٭۳

جہادِ بدر کا پاکر ثواب، ذُوالنُّورَینؓ

 

وہ جس کی ذات بنی وجہ بیعَتِ رضواں٭۴

نشانِ آیۂ اُم الکتاب، ذُوالنُّورَینؓ

 

قتال شہرِ نبی میں انہیں پسند نہ تھا

شہید ہو کے ہوئے کامیاب ذُوالنُّورَینؓ

 

سعید روح بھی پاکیزہ نفس بھی تھے عزیزؔ

سخاوتوں کے درخشاں شہاب، ذُوالنُّورَینؓ

 

 

۱۔ حضرت سیدہ رقیہ بنت رسول اللہ اور حضرت سیدہ اُمِّ کلثوم بنت رسول اللہ
کےشوہر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ۔۲۔حضرت اُمِّ کلثوم رضی اللہ عنہا کے
انتقال پر حضرت محمد مصطفی نے فرمایا اگر میری کوئی تیسری صاحب زادی
ہوتی تو میں اس کو عثمانؓ سے بیاہ دیتا اور میں خود (اپنی بیٹیوں کو کسی سے)
نہیں بیاہتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی وجہ سے ایسا کرتا ہوں۔(سیرت حضرت عثمان غنی۔
حکیم محمود احمد ظفر۔ ص ۹۷) ۳۔ غزوۂ بدر کے موقع پر حضرت سیدنا عثمانؓ اور
سیدنا اسامہ بن زیدؓ کوحضور نے اپنی لخت جگر سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی
تیمار داری کے لیے مدینے میں رکنے کا حکم دے کر فرمایا: ’’تم دونوں کو شرکتِ جہاد
کا اَجر و ثواب اور مالِ غنیمت میں سے حصہ ملے گا۔‘‘ (ایضاً۔ ص ۱۶۶) ۴۔ حدیبیہ میں
مقیم رسول اللہ تک یہ افواہ پہنچی کہ حضرت عثمانؓ جو سفیر کے طور پر مکہ
گئے تھے شہید کر دیئے گئے ہیں تو، آپ نے فرمایا: ’’اب مجھے ان سے لڑنا
حلال ہو گیا ہے کیوں کہ پہل ان کی طرف سے ہوئی ہے اور جب تک میں قتلِ عثمان
کا انتقام نہ لے لوں گا یہاں سے حرکت نہیں کروں گا۔‘‘(حکیم محمود احمد ظفر،
سیرت حضرت عثمان غنیؓ، ص۔ ۱۲۶)اتوار : ۱۵؍ ذی الحج ۱۴۲۹ھ ۱۴ ؍ دسمبر ۲۰۰۸ء
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ