اردوئے معلیٰ

Search

جیتے جیتے وہ دکھ جھیلا سکھ کا جینا چھوٹ گیا

ایک غریب سے جیسے اک انمول خزینہ چھوٹ گیا

 

آنسو دریا بن کر پھوٹے آنکھوں کے صحراؤں سے

ایک قرینہ صبر کا تھا وہ ایک قرینہ چھوٹ گیا

 

میرا منہ کے بل گرنا بھی میری لاپرواہی تھی

اک زینے پہ پاؤں رکھا اور اک زینہ چھوٹ گیا

 

وقت ہی تھا ناں کٹ جاتا ہے آخر میں نے کاٹ لیا

اور بھلا کیا ہونا تھا ، بس کھانا پینا چھوٹ گیا

 

کومل اس کا ہاتھ مرے ہاتھوں سے نکلا ہے اور آج

یوں لگتا ہے جیسے مجھ سے شہر مدینہ چھوٹ گیا

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ