جیتے جیتے وہ دکھ جھیلا سکھ کا جینا چھوٹ گیا
ایک غریب سے جیسے اک انمول خزینہ چھوٹ گیا
آنسو دریا بن کر پھوٹے آنکھوں کے صحراؤں سے
ایک قرینہ صبر کا تھا وہ ایک قرینہ چھوٹ گیا
میرا منہ کے بل گرنا بھی میری لاپرواہی تھی
اک زینے پہ پاؤں رکھا اور اک زینہ چھوٹ گیا
وقت ہی تھا ناں کٹ جاتا ہے آخر میں نے کاٹ لیا
اور بھلا کیا ہونا تھا ، بس کھانا پینا چھوٹ گیا
کومل اس کا ہاتھ مرے ہاتھوں سے نکلا ہے اور آج
یوں لگتا ہے جیسے مجھ سے شہر مدینہ چھوٹ گیا