خدا نے راہ سجائی ہے کوئے طیبہ تک
گُلوں کی فصل لگائی ہے کوئے طیبہ تک
قدم قدم پہ یہاں عافیت کا پہرہ ہے
سڑک جو رب نے بچھائی ہے کوئے طیبہ تک
مراد اصل میں اس نے ہی پائی ہے جس کو
حیات کھینچ کے لائی ہے کوئے طیبہ تک
مجھے کہیں بھی کسی غم کا ڈر نہیں ہوتا
” مری فغاں کی رسائی ہے کوئے طیبہ تک “
صبا جو لوٹ کے آئی اُدھر سے اُس نے مجھے
ہر ایک بات بتائی ہے کوئے طیبہ تک
تمہیں خبر ہے فلک سے پرے کے رازوں کی
اگر تمہاری رسائی ہے کوئے طیبہ تک