سر پہ رکھی ہوئی دستار کسی اور کی تھی
اصل میں ہار مری مری ہار کسی اور کی تھی
ہم تو بس اس میں سکونت کے گنہگار رہے
در کسی اور کا دیوار کسی اور کی تھی
ہم کو حاصل تھی تو بس پیڑ کی چھاؤں کچھ دیر
پیڑ پر شاخِ ثمر بار کسی اور کی تھی
میں نبرد آزما خود سے تھا بہت پہلے سے
رائے لیکن مجھے درکار کسی اور کی تھی
دستیابی کے سبھی مرحلے طے کرکے بھی
زندگی پھر بھی طلب گار کسی اور کی تھی