اردوئے معلیٰ

Search
سید فخرالدین بلے علیگ کی شخصیت اور فن پر شاہکار کتاب  پروفیسر ڈاکٹر وفا یزدان منش کا شاہکار‏مقد مہ
فخرِ ادب ، محسنِ فن ، مین آف دی اسٹیج ، شہنشاہِ سخن سید فخرالدین بلے علیگ کی شخصیت اور فن پر شاہکار کتاب ‏سید فخرالدین بلے۔ ایک آدرش ایک انجمن
——
صدر شعبہ ٕ اردو , یونیورسٹی آف تہران ، ایران ، پروفیسر ڈاکٹر وفا یزدان منش کا شاہکار ‏مقدمہ
——
برسوں پہلے پنجاب کے شعبہ اطلاعات میں‘ ڈی جی پی آر کے منصب سے ریٹائر ہونیوالے ایسے ہی صاحب کردار شخصیت کو آج بھی لوگ یاد کر رہے ہیں۔ سید فخرالدین بلے کو صرف پاکستان میں ہی نہیں پاکستان سے باہر بھی محبت کے ساتھ یاد کیا جا رہا ہے گذشتہ دنوں یونیورسٹی آف تہران کے شعبہ اردو کی صدر ڈاکٹر وفایزدان منش نے ’’سید فخرالدین بلے۔ ایک آدرش ایک انجمن‘‘ کے عنوان سے ضخیم کتاب کے کئی صفحات پر مبنی مقدمہ میں پاکستان کے اس مایہ ناز سپوت کو خراج عقیدت پیش کیا اور کتاب میں شامل مضامین اور لکھاریوں کے مقالوں کا اپنے انداز سے جائزہ لیا تو محسوس ہوا کہ سید فخرالدین بلے صاحب کتنی مینار قامت شخصیت تھے۔
——
یہ بھی پڑھیں : سید فخرالدین محمد بلے علیگ کی حیات و خدمات کی کائنات
——
سن 1930ء انیس سو تیس میں بھارت کے شہر ہاپوڑ میں پیدا ہونے والے سید فخرالدین بلے نے علیگڑھ سے گریجویشن کے بعد ادیب کامل کی ڈگری بھی لی اور اپنے والد سید معین الدین کے احباب تلوک چند محروم، جوش ملیح آبادی ۔ مولوی عبدالحق جیسے احباب کی صحبت سے بھی فیض حاصل کیا پھر یہ بھی دیکھا کہ انکے والد کسی طرح 1946ء میں قائداعظم اور لیاقت علی خان کی الیکشن مہم کے انچارج کے طور پر تحریک پاکستان کیلئے مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ میرے جیسے ان کے جونیئر دوست زیادہ تر ان کے سرکاری منصب کی مصروفیات تک ان کا جائزہ لیتے رہے جبکہ علم و ادب کی سرکردہ شخصیات نے اپنے اپنے زوایے سے ان کو دیکھا اور پھر اپنے مقالات کے ذریعے گواہی دی۔ڈاکٹر وفا یزدان منش نے ان گواہیوں کا سرسری سا ذکر بھی کیا ہے اور بتایا ہے کہ مختلف قد آور ادیبوں اور صاحبان قلم نے سید فخرالدین بلے علیگ کیلئے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کیسے کیسے عنوانات تجویز کئے مثلاً ابتظار حسین نے ’’یہ سید کام کرتا ہے‘‘، سید آل احمد سرور نے ’’بلند پایہ کلام کا خالق‘‘، ڈاکٹر وزیر آغا نے سید فخرالدین بلے، تصوف پر اتھارٹی‘‘، ڈاکٹر فوق کریمی علیگ نے ’’فخر ادب ، علی گڑھ کا بلے‘‘ پروفیسر منظر ایوبی نے ’’اس شخصیت میں کتنے جہان آباد ہیں‘‘، ڈاکٹر خواجہ زکریا نے سید فخرالدین بلے، بڑے حلم اور آبرو والے‘‘ پروفیر قیصر نجفی نے‘‘ ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے‘‘ طفیل ہوشیارپوری نے ’’کئی دنیاؤں کا ایک بڑا آدمی‘‘ جیسے عنوان کے تحت ان کی شخصیت کا احاطہ کیا۔ اس طرح اور احمد ندیم قاسمی ڈاکٹر انور سدید ۔ بانو قدسیہ ۔ پروفیسر جاذب قریشی، افتحار عارف ، اصغر ندیم سید ۔ کمال احمد رضوی اور شبنم رومانی، پروفیسر خالد پرویز دوسرے بہت سے احباب نے سید صاحب کو تفصیلی خراج عقیدت پیش کیا۔ سچ یہ ہے کہ ان کی شخصیت ہفت رنگ تھی۔ وہ ایک دلیر آفیسر بھی تھے، محمد علی بوگرہ ، ذوالفقار علی بھٹو ۔ جنرل ضیاء الحق ۔ محمد خان جونیجو ، حنیف رامے ۔ غلام مصطفی کھر ، غلام مصطفی جتوئی ، مخدوم سجاد حسین قریشی ۔ سید فخر امام ۔ صاحبزادہ فاروق علی ۔ نواب صادق حسین قریشی۔ نیاز محمد ارباب ۔ سمیت اقتدار کی بڑی بڑی شخصیات کے ساتھ اتنے اعتماد کے ساتھ کام کرنا اور میڈیا کے حوالے سے سچ بات کرنا ان کی انفرادیت تھی۔
——
یہ بھی پڑھیں : کتاب کا مقدمہ ” ہم سید فخرالدین بلے کے قرض دار ہیں”۔
——
صحافیوں کے مسائل کے حوالے سے بڑے بڑے حاکم کے سامنے ڈٹ جاتے تھے۔ تخلیقی سطح پر انہوں نے تصوف کے میدان میں ’’قول اور رنگ‘‘ کے حوالے سے بھرپور کام کیا کہ رازی ٕ دوراں ، غزالی ٕ زماں علامہ سید سعید احمد کاظمی جیسے صاحبان نظر کا کہنا پڑا کہ امیر خسرو کے سات سو سال بعد کسی شخصیت نے قوالی کو اس کے تاریخی حسن کے ساتھ تجزیاتی رنگ دیا ہے۔ سید فخرالدین بلے صاحب نے ایک سو پچاس کے لگ بھگ چھوٹی بڑی کتابیں تخلیق ،تصنیف ، اور تالیف کیں۔ ثقافتی میدان میں ان کے بہت سے تاریخ ساز اقدامات میں سے ایک پچیس روزہ جشن تمثیل ہے۔ جس میں حصہ لینے اور ابتدا کرنے والے آرٹسٹ بعد میں بڑے بڑے اداکار بنے۔ اسی حوالے سے انہیں ’’محسن فن‘‘ اور ’’مین آف دی سٹیج‘‘ جیسے خطابات سے نوازا گیا۔ ان کی تقریباتی یادوں میں ان کے گھر میں برسوں تک باقاعدہ ادبی مجالس کا سلسلہ قافلہ اور ’’پڑاؤ‘‘ کے نام سے اب بھی ادب کی بہترین یادوں کا حوالہ ہے۔ سید فخرالدین بلے نے جس طرح اپنے علمی ادبی روحانی قائد والد محترم کے نام کو اپنی سرگرمیوں سے تابندہ تر کیا اس طرح سید فخرالدین بلے کے فرزند ان کی یادوں کی روشنی میں صحافت اور علم و ادب میں اپنا اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں چنانچہ سید انجم معین بلے ، سید عارف معین بلے اور سید ظفر معین بلے اپنے اپنے میدان میں مصروف کار ہیں سید آنس معین مرحوم تو شاعری میں ایک حوالہ بن چکے ہیں۔ ظفر معین بلے نے ادب لطیف کی کئی سال ادارت کی ڈاکٹر وفا یزدان منش نے اپنے طویل مقدمہ میں ایک اچھی بات لکھی ہے کہ سرسید اور ان کے رفقا کی کوشش اور شفقت سے جو روح علی گڑھ کے تعلیمی نظام میں پھونکی گئی وہ ابھی تک وہاں کی فضاؤں میں موجود اور محسوس کی جاتی ہے۔ یہ روح سید فخرالدین میں بھی رچی بسی تھی۔ وہ اس روح کو ہجرت کے وقت اپنے ساتھ پاکستان لائے اور گروہ بندیوں سے آزاد رہ کر صرف روشنی پھیلانے کا کام کرتے رہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : سید فخرالدین بلے علیگ : امید و رجا کے صاحبِ طرز شاعر اور دیدہ ور ادیب
——
وہ محض ایک انجمن نہیں بلکہ قافلہ تھے اور اپنے شعر کی عملی تفسیر بھی
——
میں بعد مرگ بھی بزم وفا میں زندہ ہوں
تلاش کر مری محفل مرا مزار نہ پوچھ
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ