اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف شاعر اور نقاد شمس رمزی کا یوم وفات ہے۔

شمس رمزی(پیدائش: 1960ء- وفات: 17 فروری، 2018ء)
——
مختصر سوانح
——
نام : جمیل احمد ایوبی انصاری
قلمی نام : شمس رمزی
والد ماجد : حضرت نبی بخش ایوبی انصاری
وطنِ عزیز : گُنور ضلع بدایون ، یوپی ، ہندوستان
پیدائش : 1960 ء
سکونت : 147 سی ویلکم ، دہلی
تعلیم : بی اے
ذوقِ شاعری : 1976 ء
شرفِ تلمذ : نیر سخن علامہ رمز آفاقی
——
آہ شمس رمزی ایک”شمس”جومیرے لیے تھا” قمر”
تحریر : سلمان عبدالصمد
——
’شمس‘ ڈوب گیا ، مگر رمز ابھی باقی ہے۔جی ہاں! شمس رمزی کی سانس کی ڈور ٹوٹ گئی ، لیکن ان کی شاعری میں پائی جانے والی رمزیت باقی رہے گی۔ساتھ ہی میرے ذہن ودماغ میں ان کی شفقتوں کا عکس بھی دھند لا نہیں ہوگا۔ ان کے صحافیانہ نقوش یوں ہی مٹ بھی کیسے جائیں گے۔
بات اگراپنی کروں تو بہت پرانی نہیں ہوگی۔کوئی پانچ برس قبل یعنی دوہزاربارہ میں پہلی بار شمس رمزی صاحب سے میری ملاقات ہوئی۔مجھے باضابطہ دلّی آئے ہوئے کوئی پانچ دن ہی ہوئے تھے۔یوں تو اس سے پہلے بھی دلّی آتاجا تاتھا، بلکہ یوں کہیے کہ میں دلّی ا س وقت ہی آگیا تھا، جب دارالسلطنت کے صحیح مفہوم سے ناآشناتھا۔ یہی وہ زمانہ تھا، جب مَیں نے قرآن حفظ کیا تھا۔ حفظِ قرآن کے بعد وطنِ اصلی کارخ کیا۔ پھرنوابوں کا شہراور ہندوستانی سمرقند وبخارا لکھنو گیا، جہاں چمن زارِشبلی درالعلوم ندوۃ العلما میں زیر تعلیم رہا ۔اس کے بعدوہیں لوٹ آیا، جہاں کبھی دارالسلطنت کے مفہوم سے نا آشنا تھا۔ صحافت کا شوق تھا۔ حالات کا تقاضا بھی۔ اس لیے صبح دلی یونیورسٹی اور ذاکر حسین کالج میں( ایم اے ) داخلہ کی کارروائی میں مصروف ہوتاتھا توشام میں جز وقتی ملازمت تلاش کرتا تھا۔ ربِّ کائنات کی قدرت کہ ہفتہ بھرمیں ہی تلاش مکمل ہوئی۔ روزنامہ’ ہماراسماج‘میں بیٹھنے کا موقع مل گیا۔جہاں شمس رمزی صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی۔پہلے دن انھوں نے مجھ سے دو خبریں ٹائپ کروائیں۔ پھراداریہ کی کمپیوزنگ۔اس کے بعد اداریہ کی پروف ریڈنگ۔ پھر یکایک ایک دن اداریہ لکھنے کی ’درخواست‘ ۔ میں ہکا بکاتھا۔چنانچہ میں نے ان کی درخواست پر عمل کیا اور نہ ہی ان کی ’درخواست‘ کو’ حکم ‘تسلیم کیا۔
سچی بات یہ ہے کہ مجھے چند دنوں میں جہاں خالد انور صاحب کی بہت سی باتوں نے متاثر کیا تھا،وہیں شمس رمزی صاحب کے رویوں نے بھی حوصلہ بخشا۔ پتا نہیں کہ ’ہمارا سماج‘ میں’ ڈیسک ہیڈ‘ کی حیثیت سے کتنے بڑے بڑے صحافیوں نے فریضہ انجام دیا ، لیکن میں نے شمس رمزی صاحب کو بہت قریب سے یہ فریضہ انجام دیتے دیکھا۔ اعتراف کہ ابھی میں نے بہت کم دیکھا ، مگرجو ان کے پاس دیکھا،وہ شاید ہی کسی ہیڈ صحافی کے پاس دیکھا۔ غالب گمان بھی ہے کہ ملازمین صحافیوں نے بھی ان جیسا بہت کم دیکھاہوگا۔
——
یہ بھی پڑھیں : ممتاز شاعر برق دہلوی کا یومِ وفات
——
مجھے نہیں معلوم کہ شمس رمزی صاحب کی صحافیانہ حیثیت کس قدر مستحکم ہے اور صحافت کی خاردار وادی میں انھوں نے کتنی مسافت طے کی، لیکن وہ’فیصل‘اخبارکاتذکرہ کرتے تھے، جو نوے کے آس پاس دریا گنج دلی سے شایع ہوتا تھا۔اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے تقریباً تیس برس صحافت کی آبیاری کی۔ میرایہ اندازہ ان کی زبان سے ہونے والے ’فیصل‘کے تذکر وں پر محیط ہے،مگران کوقریب سے دیکھنے کے بعدمیرامفروضہ یہ ہے کہ وہ خود کو ہمیشہ ملازمین صحافیوں کی صف کاایک فرد سمجھتے تھے۔اس لیے وہ ملازمین صحافیوں کی قدرکرتے تھے۔ چھوٹوں کی ہمت افزائی کرتے تھے۔ ان کے جملوں میں اس قدر لجاجت کہ ان کے ساتھ کام کرنے والے ہمیشہ ان کو اپنا بہی خواہ جانتے تھے۔
رہی بات ان کی شاعری کی توزبان شگفتہ ،اسلامی فکر اسلام اورموضوعات صحافت وعشق سےمتاثرتھے۔ علم عروض کے معاملہ میں کم از کم وہ دلّی میں انگلیوں پرگنے ہی جاسکتے ہیں۔ اگرسیاسی قطعات کے تناظرمیں گفتگوکریں تواِکّا دُکّا شاعر ہی ان کے ہم پلہ ہوں گے۔ ان کے فکری رویوں اور دیگر تصانیف پر مبسوط مضمون کبھی اور۔یہاں پران کے شعری مجموعہ’’غبارشمس ‘‘سے دو ادیبوں کے اقتباسات:
شمس رمزی فنی رکھ رکھاؤکے ساتھ اپنی بات نئے لب ولہجہ میں کہنے کی کوشش کرتے ہیں اوران کے اشعار میں یہ کوشش بارآورہوتی دیکھی جاسکتی ہے۔ ……ان کی بیشتر غزلیں نئی زمینوں میں ہیں اور ان نئی زمینوں کوانھوں نے جس خوبی سے برتا ہے ، اس سے ان کی قدرتِ کلام کااندازہ کیاجاسکتاہے۔(مخمورسعیدی )
شمس کی شعری کائنات میں مختلف رنگ اورتجربوں کی مختلف سطحیں نظر آتی ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ عہدِ حاضر کے شکستہ انسان کی شکستہ زندگی، اس کے پردرد نوحے اورمجروح داستانوں نے ان کوزیادہ متاثرکیاہے۔( شہپررسول)
شمس رمزی کے فکری اورفنی رویوں سے قطع نظر’جودیکھا، جومحسوس کیاہے‘سے چند باتیں :
روزنامہ ’ہماراسماج‘سے کہیں زیادہ اردوصحافت کووقار عطاکرنے والے بے باک صحافی عزیزبرنی صاحب کے اخبار’’عزیزالہند‘‘میں مَیں نے شمس رمزی صاحب کوقریب سے جانا۔ اس اخبار کے وہ اولین بہی خواہوں میں سے تھے۔اسے انھوں نے نہ صرف اپناوقت دیا، بلکہ عزیزاز جان سمجھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کا انھیں کوئی ’سچا معاوضہ‘ ملااورنہ ہی دل جوئی ملی۔بہرکیف ’’عزیزالہند‘‘کو انھوں نے سینچا ۔ سیلم پورجعفرآباد سے نوئیڈا بلاناغہ آتے تھے۔ ابتدائی ایام میں عزیزبرنی صاحب نے انھیں اختیارات دیے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ہرکام بڑے اہتمام سے کرتے تھے۔ اداریہ لکھتے تھے۔ قطعات کہتے تھے۔پروف پڑھتے تھے۔ سب سے بڑھ کراپنے ساتھ کام کرنے والے ملازمین کوہنساتے تھے۔ بہلاتے تھے ۔ کام کراتے تھے اورسب کے دلوں میں اپنے نقوش چھوڑجاتے تھے۔
10جون2013کو شروع ہونے والے ’’عز یزالہند ‘‘کے بیشتراداریے انھوں نے ہی لکھے ہیں۔ عزیز برنی صاحب ’آزادبھارت کااتہاس ‘ کی تیاری میں مصروف رہتے تھے۔’ عزیزالہند‘ کاباضابطہ پہلا اداریہ لکھنے کی خوش نصیبی میرے حق میں ہی آئی تھی۔شفیق من عزیزبرنی صاحب اورشمس رمزی صاحب نے مجھے یہ موقع دیاتھا۔ ’عزیزالہند‘میں راقم نے بھی معتد بہ اداریے لکھے۔ شمس رمزی صاحب بڑے شاعربھی تھے۔ اداریہ چاہے جو لکھے ، اسی کی مناسبت سے شمس رمزی صاحب ’عزیزالہند‘ کے ادارتی صفحہ پر قطعا ت کہتے تھے۔ وہ اداریہ لکھتے تواداریہ کے ساتھ ہی قطعہ بھی دے دیتے تھے۔ اگرراقم لکھتا توسر سے زبردستی اداریہ کی مناسبت سے قطعہ لکھواتاتھا۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر ندا فاضلی کا یومِ وفات
——
شمس رمزی کی پیدائش1960 میں بدایوں میں ہوئی اور آج 17 فروری2018 کو ان کے انتقال کی خبر ملی۔وہ انتہائی ملنسار تھے۔ شفیق کی حد تک چھوٹو ں پرشفقت فرماتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ساتھ کام کرنے والے ان کاذکربڑے والہانہ انداز سے کرتے ہیں۔میں بہت سے ایسے نوجوانوں کو جانتاہوں ، جو ملازمت کے زمانہ میں ان سے قریب تھے اور اخبارات سے الگ ہونے کے بعدبھی رمزی صاحب سے خوشگوار رابطہ رکھتے تھے۔
میں عملی صحافت سے دور ہوں اور شمس رمزی صاحب بھی تقریباً تین برسوں سے الگ تھے۔’’ عزیزالہند ‘‘کے بعدانھوں نے باضابطہ کسی اخبار میں ملازمت نہیں کی لیکن ان سے میرارابطہ تھا،گہراتھا۔ ویسے وہ بہت دنوں سے بیمار تھے ۔ سانس کا عارضہ تھا ۔کوئی ایک ماہ قبل ان کی طبیعت شدیدخراب ہوگئی تھی۔ میں نے فون کیا کہ سر آپ سے ملنے کل آؤں گا۔ انھوں نے کہاکہ کل مت آؤ ،پرسوں آؤ ۔ ’پرسوں ‘ میں جانہ سکا۔پھر کئی دنوں کے بعدبات ہوئی اورمیں نے کہا سرآج آؤں۔ انھوں نے کہاکہ کل آؤ…کوئی دس دن پہلے انھوں نے کہاتھاکہ’ کل ‘ آؤ۔ میں متعینہ’ کل ‘ ان سے ملنے نہیں جاسکااوراب تو ان سے ملنے کے لیے کوئی’کل‘آئے گا ہی نہیں۔ اے کاش ! کل،کی تعبیر وتفہیم سے ہم ہمکنارہوجائیں ۔
بہر کیف، شمس رمزی صاحب بھی میری صحافتی دنیامیں شمس کم، قمر زیادہ تھے۔امیدہے کہ ان کی صحافتی روشنی سے میں بھی فائدہ اٹھاؤں گااوردیگراٹھانے والے بھی اٹھائیں گے ۔
——
منتخب کلام
——
میری حیات کا ہر لمحہ پھول ہو جائے
ترے کرم کا جو مجھ پر نزول ہو جائے
خدا سے اتنی دعا ہے قبول ہو جائے
کہ میرا جسم مدینے کی دھول ہو جائے
——
دنیاوی شرابوں کی نہیں مجھ کو ضرورت
میخوار ہوں ، میخوار ہوں ، میخوارِ مدینہ
——
آج جن ہاتھوں میں کشکول نظر آتا ہے
کل وہی ہاتھ تو تھے جود و سخا میں مصروف
——
چاند سورج پر کروں کیا تبصرہ اس کے سوا
وہ نقیبِ شب ہے ، یہ ہے آئینہ بردارِ صبح
——
ہے پانی پر بھی اس کی حکمرانی
جو پیروں سے سمندر کاٹتا ہے
اگر جاگوں تو ان کا غم ستا دے
اگر سوؤں تو بستر کاٹتا ہے
——
اب زندگی کی دھوپ سے کیسے ملے اماں
راہوں میں سایہ دار کوئی بھی شجر نہیں
——
ٹھیس لگتی ہے انا کو تو برس پڑتے ہیں
لب کُشا ہوتے نہیں اہلِ سخن دانستہ
——
تازہ اب ایسی روایت نہیں کرنے والا
میں ترے خوف سے ہجرت نہیں کرنے والا
——
یہ الگ بات کہ تقدیر نہ چمکی میری
میرے سجدوں نے تو چمکا دیا میلا پتھر
——
پروردگار کوئی بھی ایسی خوشی نہ دے
جو غم سے بے نیاز ہو وہ زندگی نہ دے
پہلوئے تمکنت ہو عیاں جس سے اے خدا
میرے لبوں کو عمر بھر ایسی ہنسی نہ دے
اپنی جگہ انا ہے بڑی دل پذیر شئے
دنیا کو بھول جاؤں مگر وہ خودی نہ دے
انسان جس کو دیکھ کے تھرائے خوف سے
میری نظر کو ایسی کوئی روشنی نہ دے
اپنے سوا ہر ایک نظر آئے پستہ قد
میدانِ شاعری میں وہ قد آوری نہ دے
ہو جاؤں جس کو پا کے زمانے سے ماورا
تو وہ متاعِ دردِ محبت کبھی نہ دے
ہر روشنی کے بعد اندھیرا ہے دور تک
اے رہنمائے قوم نئی روشنی نہ دے
——
مشتعل ہو گیا وہ غنچہ دہن دانستہ
آ گئی لفظوں میں کیوں اس کے چبھن دانستہ
جب بھی لایا ہے وہ ماتھے پہ شکن دانستہ
یوں لگا جیسے ہوا چاند گہن دانستہ
ٹھیس لگتی ہے انا کو تو برس پڑتے ہیں
لب کشا ہوتے نہیں اہل سخن دانستہ
سربلندی ہمیں منظور تھی حق کی خاطر
اس لیے چوم لیے دار و رسن دانستہ
جتنے بھی اہل سیاست ہیں وطن دشمن ہیں
سب نے پھونکا ہے محبت کا چمن دانستہ
یہ بھی سچ اینٹ کا پتھر سے دیا ہم نے جواب
یہ بھی سچ بیر ہے ان سے نہ جلن دانستہ
اس سے بہتر کہاں اظہار غم دل کرتے
یوں تراشا کیے لفظوں کے بدن دانستہ
اس سے دشمن ہی نہیں موت بھی کترائے گی
جس نے بھی باندھ لیا سر سے کفن دانستہ
شاید اس دور کی تہذیب کو غیرت آئے
ہم نے چھیڑی ہے حکایات کہن دانستہ
جس کو وہ چاہے عطا کر دے یہ وصف تقدیس
کون پاتا ہے غزل کہنے کا فن دانستہ
سہمے سہمے سے ہیں پیڑوں پہ پرندے اے شمسؔ
اس نے گھولی ہے فضاؤں میں گھٹن دانستہ
——
یہ ارض و سما قلزم و صحرا متحرک
اک تو ہی نہیں شمس ہے دنیا متحرک
تا حد نظر اک وہی چہرا متحرک
یا حسن مجسم کا ہے جلوا متحرک
انسانوں میں اب بوئے وفا ہی نہیں ملتی
ہر شخص نظر آتا ہے تنہا متحرک
یہ سوچ رہا ہوں اسے کس چیز کا غم ہے
رہتی ہے مرے دل میں تمنا متحرک
یوں دھوپ سے گھبرا کے میں سائے میں نہ بیٹھا
ساکن ہے اگر پیڑ تو سایا متحرک
خوشبوئے گل تر پہ ہی موقوف نہیں ہے
ہر شاخ گل تر کا ہے پتا متحرک
روشن کیے اک نے تو بجھائے دیے اک نے
حرکت میں ہے ظلمت تو اجالا متحرک
جس کی بھی جو منزل ہے وہیں تک یہ گیا ہے
راہی کی بدولت ہوا رستا متحرک
وہ چاند ہو سورج ہو گل تر ہو کہ شبنم
ہم نے تو ہر اک چیز کو دیکھا متحرک
دریا کی حدوں میں جو اتر جاؤ گے اے شمسؔ
آئیں گے نظر ساحل و دریا متحرک
——
غم دیے ہیں تو مسرت کے گہر بھی دینا
اے خدا تو مجھے جینے کا ہنر بھی دینا
حاکم وقت یہ ہجرت مجھے منظور مگر
دم رخصت مجھے سامان سفر بھی دینا
اے شب و روز کے مالک مجھے اس دنیا میں
لیلۃ القدر کی مانند سحر بھی دینا
سن ذرا غور سے سن اے شجر سایہ فگن
جب ترے سائے میں پہنچوں تو ثمر بھی دینا
لفظ نکلیں جو زباں سے تو دلوں تک پہنچیں
میری تقریر میں کچھ ایسا اثر بھی دینا
تیرے الطاف و کرم کی ہے بہر سو شہرت
مال و زر دے گا ہی تو لعل و گہر بھی دینا
تو جو شمشیر بکف ہو تو میں سر پیش کروں
جو ہیں دل والے انہیں آتا ہے سر بھی دینا
بخشنے والے زمانے کو جمال ہر رنگ
جو تجھے دیکھ سکے ایسی نظر بھی دینا
لے چلا میں تری جنت سے بیاباں کی طرف
سر چھپانے کو وہاں تو مجھے گھر بھی دینا
حرف آ جائے نہ تجھ پر کہیں کم ظرفی کا
دامن شمسؔ کو تو دیدۂ تر بھی دینا
——
نظم : اردو
میں اردو ہوں
مجھے غیروں سے کیا خطرہ
کبھی دشمن سے ہوتا ہی نہیں خطرہ کسی کو بھی
سبب تم بھی سمجھتے ہو
کہ دشمن ہر گھڑی ہر پل
مقابل ہی رہا کرتا ہے دشمن کے
مقابل سے تو میدانوں میں اکثر جنگ ہوتی ہے
نتیجہ جنگ کا تم بھی سمجھتے ہو
محاذ جنگ پر خطر ہے نہیں ہوتا
شکست و فتح ہوتی ہے
تو پھر خطرہ کہاں سے ہے
سنو روداد غم
دل تھام کر سننا ذرا لوگو
مجھے خطرہ ہے اپنوں سے
مجھے خطرہ ہے شاعر اور دانشور ادیبوں سے
مجھے نقاد سے خطرہ محقق سے مجھے خطرہ
یہ سارے لوگ وہ ہیں جو تعلق سے مرے اب تک
زمیں سے عرش تک
دعوے تو کرتے ہیں بلندی کے
محافظ خود کو اردو کا کہا کرتے ہیں یہ اکثر
یہ دعویٰ سب بجا لیکن
کوئی پوچھے ذرا ان سے
تمہارے پیارے بچوں میں کوئی ایسا بھی بچہ ہے
کہ جس کو آپ نے اردو سے بہرہ ور کیا اب تک
اگر کوئی یہ پوچھے گا
شکن ماتھے پہ آئے گی نفی میں سر جھکائیں گے
یہی قاتل تو ہیں میرے
یہی تو میرے اپنے ہیں
انہیں سے مجھ کو خطرہ ہے
انہیں پہچان لو لوگو
انہیں پہچان لو لوگو
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ