اردوئے معلیٰ

Search

آج اردو کے ممتاز شاعر اور گیت نگار ، صہبا اختر کا یوم وفات ہے۔

(پیدائش: 30 ستمبر، 1931ء – وفات: 19 فروری، 1996ء)
——
صہبا اختر 30 ستمبر، 1931ء کو جموں، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی رحمت علی کا تعلق امرتسر سے تھا،وہ آغا حشر کاشمیری کے ہم عصر تھے۔ صہبا اختر نے بریلی سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا مگر اسی دوران پاکستان کا قیام عمل میں آ گیا اور انہیں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان آنا پڑا۔ پاکستان آنے کے بعد صہبا اختر نے بہت نامساعد حالات میں زندگی بسر کی۔ پھر انہوں نے محکمہ خوراک میں بطور انسپکٹر ملازمت اختیار کی اور ترقی کرکے راشننگ کنٹرولر کے عہدے تک پہنچ کر ریٹائر ہوئے۔
صہبا اختر کو شعر و سخن کا ذوق زمانہ طالب علمی سے ہی تھا۔ وہ ایک زود گو شاعر تھے۔ انہوں نے نظم، قطعہ، گیت، ملی نغمے، دوہے اور غزل ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی ۔ صہبا اختر کی شاعری میں جس طرح بڑی جان تھی بڑا دم خم تھا اسی طرح ان کے پڑھنے کے انداز میں بھی بڑی گھن گرج تھی وہ کراچی کے مشاعروں میں اپنا ایک منفرد انداز رکھتے تھے ان کی شاعری میں نظیر اکبر آبادی، جوش ملیح آبادی اور اختر شیرانی کا رنگ جھلکتا تھا۔ وہ غزل کے ساتھ ساتھ نظم کے بھی بڑے عمدہ شاعر تھے، ریڈیو پاکستان کے لیے بڑی پابندی سے لکھتے تھے۔ صہبا اختر نے فلم کے لیے بھی مشہور گیت لکھے۔ ان کے گیتوں میں اک اڑن کھٹولا آئے گاایک لال پری کو لائے گا، دنیا جانے میرے وطن کی شان، چندا تجھ سے ملتا جلتا اور بھی تھا اک چاند، پریتم آن ملو، تنہا تھی اور ہمیشہ سے تنہا ہے زندگی اور چاند کی سیج پہ تاروں سے سجا کر سہرا بہت مشہور ہوئے۔ ان کے مجموعہ ہائے کلام میں سرکشیدہ، اقرا، سمندر اور مشعل کے نام شامل ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : صہبا لکھنوی کا یومِ وفات
——
حکومت پاکستان نے صہبا اختر کو ان کی وفات کے بعد ان کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔
صہبا اختر کی ادبی خدمات کے اعتراف میں گلشن اقبال کراچی میں سڑک کا نام ان کے نام منسوب کی گئی ہے۔
صہبا اختر 19 فروری، 1996ء کو کراچی، پاکستان میں حرکت قلب بند ہونے کے سبب انتقال کر گئے اور گلشن اقبال کے قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔
——
صہبا اختر شاعری کا سمندر تھے از یونس ہمدم
——
میری پہلی ملاقات ان سے ایک مشاعرے کے دوران ہی ہوئی تھی پھر اکثر ریڈیو اسٹیشن پر ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں اور جب میں ہفت روزہ نگار سے وابستہ ہوا اور شناسا کے قلمی نام سے کراچی کی فلمی ڈائری بھی لکھتا تھا تو اس دوران ایسٹرن فلم اسٹوڈیو میں بھی ان سے ملاقات رہتی تھی۔ ان دنوں کراچی میں ایک فلم ’’سمندر‘‘ بن رہی تھی جس کے ہدایت کار باپو رفیق رضوی تھے (فلمسازوہدایت کار سعید رضوی کے والد) شبنم اور وحید مراد فلم میں مرکزی کردار ادا کر رہے تھے۔
ان دنوں ایسٹرن فلم اسٹوڈیو میں ایک گیت مذکورہ فلم کے لیے ریکارڈ کیا گیا تھا جو احمد رشدی، مسعود رانا اور سائیں اختر کی آوازوں میں صدا بند ہوا تھا۔
فلم کے موسیقار دیبو بھٹہ چاریہ تھے گیت کے بول تھے ’’ساتھی تیرا میرا ساتھی ہے لہراتا سمندر‘‘ یہ گیت اپنی شاعری اور خوبصورت دھن کی وجہ سے بڑا مقبول ہوا تھا اور اس کی مقبولیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایم کیو ایم والوں نے اس گیت کا پورا مکھڑا تیرا میرا ساتھی ہے الطاف حسین کر کے جب اپنی الیکشن کمپین میں پہلی بار استعمال کیا تو یہ گیت اتنا پاپولر ہوا کہ ایم کیو ایم والوں کا قومی گیت بن گیا تھا۔ فلم ’’سمندر‘‘ نے اپنے گیت سے اتنا فائدہ حاصل نہیں کیا جتنا فائدہ کراچی کی سیاسی جماعت نے حاصل کیا اور ہو بہو وہی دھن بھی استعمال کی تھی۔
اب میں آتا ہوں صہبا اختر کی شخصیت اور شاعری کی طرف۔ صہبا اختر کی پیدائش تو جموں و کشمیر میں ہوئی تھی مگر ان کی پرورش بریلی میں ہوئی جہاں کے بانس بڑے مشہور ہیں۔ پھر مزید تعلیم مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ سے حاصل کی ان کا اصلی نام اختر علی تھا۔
ان کے والد منشی رحمت علی کا تعلق امرتسر سے تھا، پھر یوپی کے ادبی ماحول میں ان کا شعری ذوق پروان چڑھا تقسیم کے بعد یہ پاکستان آگئے اور پھرکراچی کو اپنا مسکن بنا لیا۔ ابتدا میں انکم ٹیکس کے محکمے میں رہے پھر راشننگ آمیز ہوگئے، صہبا اختر کی شاعری میں جس طرح بڑی جان تھی بڑا دم خم تھا اسی طرح ان کے پڑھنے کے انداز میں بھی بڑی گھن گرج تھی وہ کراچی کے مشاعروں میں اپنا ایک منفرد انداز رکھتے تھے ان کی شاعری میں نظیر اکبر آبادی، جوش ملیح آبادی اور اختر شیرانی کا رنگ جھلکتا تھا۔ وہ غزل کے ساتھ ساتھ نظم کے بھی بڑے عمدہ شاعر تھے ، ریڈیو کے لیے بڑی پابندی سے لکھتے تھے۔
——
یہ بھی پڑھیں : صہبا لکھنوی کا یومِ پیدائش
——
1965 کی جنگ کے دوران ان کا لکھا ہوا ایک قومی گیت ’’یا رب مرے وطن کا پرچم بلند رکھنا‘‘ جسے کورس کی صورت ریکارڈ کیا گیا تھا اور ریڈیو کی تمام مقبول آوازوں نے اس گیت کی صدابندی میں حصہ لیا تھا اور اس گیت کی موسیقی ریڈیو اسٹیشن ہی کی ایک مشہور موسیقار جوڑی لال محمد اقبال نے مرتبت کی تھی۔ صہبا اختر کا لکھا ہوا ایک نامکمل فلم ’’جلتے ارمان بجھتے دیپ‘‘ کا گیت جس کے بول تھے ’’تنہا تھی اور ہمیشہ سے تنہا ہے زندگی‘‘ جس طرح کل مقبول تھا اسی طرح آج بھی ریڈیو سے نشر ہوتا ہے تو پسند کیا جاتا ہے۔
پھر ان کا ایک اور گیت جو رونا لیلیٰ نے ایک ناکام فلم ’’پروفیسر ‘‘ کے لیے لکھا تھا جس کے بول تھے ’’جنم جنم تیرا میرا ساتھ رہے گا‘‘ کو بھی بڑی پذیرائی حاصل ہوئی تھی مگر یہ دونوں گیت مشہور ہونے کے بعد بھی ان کی شہرت کو سہارا نہ دے سکے جب کہ ان کو شہرت ان کے لکھے ہوئے فلم ’’سمندر‘‘ کے گیتوں سے ملی تھی۔
اب میں آتا ہوں صہبا اختر کے لکھے ہوئے اس پہلے قابل ذکر گیت کی طرف جو کراچی ایسٹرن فلم اسٹوڈیو میں شروع کی گئی ایک فلم ’’پریتم آن ملو‘‘ کے لیے لکھا گیا تھا۔ فلم کے ہدایت کار اے۔ایچ۔صدیقی تھے۔ اس فلم کی بھی ایک دلچسپ داستان ہے۔ تقسیم ہند کے بعد کراچی میں رہنے والا ایک گلوکار سی۔ایچ۔آتما شرنارتھی بن کر کراچی چھوڑ کر بمبئی چلا گیا تھا ۔ بمبئی پہنچ کر اسے فلمی دنیا میں بطور گلوکار بڑا عروج حاصل ہوا اور اس کے گائے ہوئے بے شمار گیت ہٹ ہوئے۔
ان ہٹ گیتوں میں ایک گیت تھا ’’پریتم آن ملو‘‘۔ اس گیت کے لاکھوں ریکارڈ EMI گراموفون کمپنی نے فروخت کیے تھے۔ سی ۔ایچ۔آتما کی آواز بڑی جداگانہ اور گمبھیر تھی جس میں بڑا سوز وگداز تھا۔ جب 1962 میں گلوکار سی۔ایچ۔آتما کراچی آیا تو اخبارات میں اس کی بڑی پذیرائی ہوئی اور اس دوران ہدایت کار اے۔ ایچ۔ صدیقی نے اس گلوکار کے مشہور ترین گیت ’’پریتم آن ملو‘‘ کے نام کے ساتھ ایک فلم کا آغاز کرتے ہوئے اور اس مشہور گلوکار کی آمد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فلم کا آغاز اس کی آواز میں جس گیت کی ریکارڈنگ سے کیا وہ گیت صہبا اختر نے لکھا تھا اور اس کی موسیقی لال محمد اقبال نے دی تھی گیت کے بول تھے ’’چندا تجھ سے ملتا جلتا اور بھی تھا اک چاند‘‘ اس گیت کے چرچے کراچی کے اخبارات میں کافی دنوں تک رہے اور ایسٹرن فلم اسٹوڈیو میں مذکورہ فلم کے دفتر میں کئی ماہ تک بڑی چہل پہل رہی چند آرٹسٹوں کو کاسٹ بھی کیا گیا مگر پھر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور جو شخص اس فلم میں سرمایا لگا رہا تھا وہ فلم بنائے بغیر بیرون ملک سدھار گیا اور اس طرح ہدایت کار اے۔ایچ۔صدیقی کے ساتھ ساتھ صہبا اختر ایک بار پھر پس منظر میں چلے گئے۔
——
یہ بھی پڑھیں : صہبا اختر کا یوم وفات
——
پھر 1965 کی پاک و ہند جنگ کے موضوع پر ایک فلم ’’آزادی یا موت‘‘ بنائی گئی جس میں موسیقار لال محمد اقبال نے صہبا اختر سے ایک قومی گیت لکھوایا جس کے بول تھے ’’دنیا جانے میرے وطن کی شان‘‘ یہ فلم حب الوطنی کے جذبات کی عکاسی تھی اور جنگ 65 کے واقعات بھی ابھی تازہ تھے لہٰذا اس فلم کو بڑا پسند کیا گیا اور تجارتی طور پر بھی اس فلم کو کافی کامیابی نصیب ہوئی۔ اور جو گیت گایا گیا تھا وہ پاکستان کے نامور لوک گلوکار عالم لوہار نے گایا تھا۔
اس گیت کی گھن گرج لوگوں کے جذبات کو گرما دیتی تھی، پھر جب کراچی میں ایک ایکشن فلم جیمز بانڈ 008 بنائی گئی تو صہبا اختر کو نئی توانائی کے ساتھ فلم کے نغمات لکھنے کا موقع ملا تو صہبا اختر نے اس فلم کے لیے کئی گیت لکھے جو بڑے مقبول ہوئے اور ایک گیت جو احمد رشدی کی آواز میں تھا جس کے بول تھے ’’اک اڑن کھٹولا آئے گا‘ ایک لال پری کو لائے گا‘‘ ان دنوں گلی گلی میں مشہور تھا اور بچے بچے کی زبان پر تھا۔ اس ایک گیت کی وجہ سے مذکورہ فلم کو بھی کافی کامیابی حاصل ہوئی تھی۔
لیکن وحید مراد کی فلم سمندر کے گیتوں کے ساتھ ساتھ فلم ’’جھک گیا آسمان‘‘ میں صہبا اختر کا لکھا ہوا اور دیبو بھٹہ چاریہ کی موسیقی رونا لیلیٰ کا گایا ہوا ایک سہرا جس کے بول تھے ’’چاند کی سیج پہ تاروں سے سجا کر سہرا‘‘ بڑا مقبول ہوا تھا اور ان دنوں شادی بیاہ کی محفلوں میں بڑی کثرت سے گایا جاتا تھا۔
ان دو فلموں کے گیتوں کی مقبولیت کے بعد صہبا اختر پر شہرت کے دروازے کھلتے چلے گئے اور پھر انھوں نے کراچی میں بننے والی ہر فلم کے لیے گیت لکھے۔ خاص طور پر ’’پھر صبح ہوگی، نادان، روٹھا نہ کرو، گاتا جائے بنجارا‘‘ اور فلم ’’ نادان‘‘ میں ان کا لکھا ہوا ایک گیت احمد رشدی نے گایا تھا اسے جسے اداکار ندیم پر پکچرائز کیا گیا جس کے بول تھے ’’تیری جبیں سے چودھویں چاند جھانکتا رہے‘‘ فلم نادان میں ندیم کے ساتھ نشو نے کام کیا تھا اور یہ فلم کراچی کی کامیاب ترین فلموں میں ایک نمایاں مقام رکھتی تھی۔ اس کے فلمساز قدیر خان تھے۔ صہبا اختر نے کراچی ہی کی ایک اور فلم ’’بادل اور بجلی‘‘ کے لیے بھی چند گیت لکھے تھے۔
——
یہ بھی پڑھیں : اختر انصاری اکبر آبادی کا یومِ وفات
——
جن میں ایک گیت ’’بنسی بجانے والے‘‘ میڈم نور جہاں نے گایا تھا اور دوسرا گیت ’’دھیرے دھیرے پاؤں رکھ گوری‘‘ گلوکارہ رونا لیلیٰ کی آواز میں بڑا مشہور ہوا تھا۔ صہبا اختر فلمی گیت نگار ہوتے ہوئے ادب سے بھی ہمہ وقت جڑے رہے اور پاکستان بھر میں مشاعروں کی روایت کو بھی فروغ دیتے رہے۔
وہ اپنے دور کے ایک بڑے شاعر تھے اور جوش ملیح آبادی کی طرح الفاظ کا استعمال بڑی آسانی سے کرتے تھے۔ اس زمانے میں جوش کی طرح کا انداز اپنانا اور شاعری کرنا کسی عام شاعر کے بس کی بات نہ تھی۔ صہبا اختر نے کراچی ٹیلی ویژن کے لیے بھی بہت لکھا اور میں نے صہبا اختر کے ساتھ پروڈیوسر امیر امام کا ایک مشہور پروگرام ’’بزم رونا لیلیٰ‘‘ بھی کافی دنوں تک لکھا تھا۔
صہبا اختر پہلے غزلیں اور گیت لکھتے تھے اور موسیقار کریم شہاب الدین ان کی دھنیں بناتا تھا اور میں کریم شہاب الدین کی بنائی ہوئی دھنوں پر گیت لکھتے تھے۔ ’’بزم رونا لیلیٰ‘‘ اس دور کا ایک پسندیدہ پروگرام تھا جس میں رونا لیلیٰ کو بڑا سراہا جاتا تھا۔ انھیں مرنے کے بعد حکومت نے تمغہ حسن کارکردگی دیا۔صہبا اختر کراچی میں 19 فروری 1996 میں دل کا دورہ پڑنے کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
——
منتخب کلام
——
اگر شعور نہ ہو تو بہشت ہے دنیا
بڑے عذاب میں گزری ہے آگہی کے ساتھ
——
تم نے کہا تھا چپ رہنا سو چپ نے بھی کیا کام کیا
چپ رہنے کی عادت نے کچھ اور ہمیں بد نام کیا
——
صہباؔ صاحب دریا ہو تو دریا جیسی بات کرو
تیز ہوا سے لہر تو اک جوہڑ میں بھی آ جاتی ہے
——
یہ کون دل کے اندھیروں سے شام ہوتے ہی
چراغ لے کے گزرتا دکھائی دیتا ہے
——
ثبوت مانگ رہے ہیں مری تباہی کا
مجھے تباہ کیا جن کی کج ادائی نے
——
صہبا بہت سیاہ سہی یہ شب ملال
گونجے گی پھر سحر کی اذان جاگتے رہو
——
عہدِ حاضِر پر، مِرے افکار کا سایہ رہا !
بِجلیاں چمکیں بہت، میں ابر تھا چھایا رہا
وہ خرابہ ہُوں، کہ جس پر روشنی رقصاں رہی
وہ تہی دامن ہُوں جس کا فکر سرمایہ رہا
کیا حرِیفانہ گزُاری ہے حیاتِ نغمہ کار
میں زمانے کا، زمانہ میرا ٹُھکرایا رہا
ایک شب، اِک غیرتِ خورشید سے مِلنے کے بعد
اک اُجالا مُدّتوں آنکھوں میں لہرایا رہا
تلخیوں نے زِیست کی، کیا کیا نہ سمجھایا مگر
عمر بھر صہبا تری آنکھوں کا بہکایا رہا
——
یہ بھی پڑھیں : معروف نغمہ نگار حسرت جے پوری کا یومِ وفات
——
جسے لکھ لکھ کے خود بھی رو پڑا ہوں
میں اپنی روح کا وہ مرثیہ ہوں
مری تنہائیوں کو کون سمجھے
میں سایہ ہوں مگر خود سے جدا ہوں
سمجھتا ہوں نوا کی شعلگی کو
سکوت حرف سے لمس آشنا ہوں
کوئی سورج ہے فن کا تو مجھے کیا
میں اپنی روشنی میں سوچتا ہوں
مرا صحرا ہے میری خود شناسی
میں اپنی خامشی میں گونجتا ہوں
کسی سے کیا ملوں اپنا سمجھ کر
میں اپنے واسطے بھی نارسا ہوں
——
تم نے کہا تھا چپ رہنا سو چپ نے بھی کیا کام کیا
چپ رہنے کی عادت نے کچھ اور ہمیں بدنام کیا
فرزانوں کی تنگ دلی فرزانوں تک محدود رہی
دیوانوں نے فرزانوں تک رسم جنوں کو عام کیا
کنج چمن میں آس لگاۓ چپ بیٹھے ہیں جس دن سے
ہم نے صبا کے ہاتھ روانہ ان کو اک پیغام کیا
ہم نے بتاؤ کس تپتے سورج کی دھوپ سے مانی ہار
ہم نے کس دیوار چمن کے ساۓ میں آرام کیا
صہباؔ کون شکاری تھے تم وحشت کیش غزالوں کے
متوالی آنکھوں کو تم نے آخر کیسا رام کیا
——
اصنام مال و زر کی پرسش سکھا گئی
دنیا مجھے بھی عابد دنیا بنا گئی
وہ سنگ دل مزار وفا پر بنام عشق
آئی تو میرے نام کا پتھر لگا گئی
میرے لۓ ہزار تبسم تھی وہ بہار
جو آنسوؤں کی راہ پہ مجھ کو لگا گئی
گوہر فروش شبنمی پلکوں کی چھاؤں میں
کیا آگ تھی جو روح کے اندر سما گئی
میرے سخن کی داد بھی اس کو ہی دیجۓ
وہ جس کی آرزو مجھے شاعر بنا گئی
صہباؔ وہ روشنی جو بہت مہربان تھی
کیوں میرے راستے میں اندھیرے بچھا گئی
——
یہ بھی پڑھیں : معروف نغمہ نگار اسد بھوپالی کا یوم پیدائش
——
نظم : سانپ سپیرا اور میں
——
ایک سپیرا میری گلی میں آ نکلا کل شام
اس کی آنکھیں چمکیلی تھیں اور آنکھیں سنگین
لیکن رس میں بھیگے نغمے چھیڑ رہی تھی بین
نغمے جن میں جاگ رہے تھے دنیا کے آلام
اس کے گلے میں سانپ پڑا تھا جیسے کوئی ہار
اس نے گلے سے سانپ اتارا اور کہا کہ جھوم
مٹی چاٹ کے پیار سے بابو جی کے پاؤں چوم
سانپ نے مجھ کو جھوم کے چومنا چاہا جو اک بار
میں گھبرا کے پیچھے ہٹا اور میں نے کہا نادان!
سانپ کہ پتھر توڑ کے رکھ دے جس کا زہری وار
سانپ کو کون سکھا سکتا ہے انسانوں سے پیار
اس کو نیکی اور بدی کی کیا ہو گی پہچان
ہنس کے سپیرا بولا مجھ سے ہو گئی بھول
تم اک دوجے کے گلے پر رکھتے ہو تلوار
تم شہروں کے باسی کیا سمجھو گے کیا ہے پیار
میرے لیے یہ سانپ ہیں میرے سندر بن کے پھول
ماتھے پر یہ کنٹھا دیکھو جیسے کوئی تاج
یہ راجہ ہیں پر نہیں پیتے کمزوروں کا خون
یہ نہیں مارت اک دوجے کے خیموں پر شب خون
یہ نہیں لوٹتے اپنی ماؤں اور بہنوں کی لاج
یہ نہیں ڈسنے والے ان پر ڈال کے ہاتھ دیکھو
خوش قسمت ہو اور تمھارے اچھے ہیں حالات
تم انسان گزیدہ ہو کر سمجھو گے یہ بات
انسانوں کا ساتھ برا ہے یا سانپوں کا ساتھ
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ