اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف شاعر عارف عبدالمتین کا یوم وفات ہے

عارف عبدالمتین(پیدائش: یکم مارچ، 1923ء – وفات: 30 جنوری، 2001ء)
——
عارف عبدالمتین پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو اور پنجابی زبان کے ممتاز شاعر اور نقاد تھے۔
عارف عبدالمتین یکم مارچ 1923ء کو کوچہ وکیلاں، امرتسر، برطانوی ہندوستان میں خواجہ عبدالحمید کے گھر پیدا ہوئے۔ امرتسر سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ لاہور آ گئے۔
قیام پاکستان کے بعد انہوں نے کئی ادبی جریدوں کی ادارت کی جن میں ادب لطیف، سویرا، جاوید، اوراق اور ماحول کے نام شامل ہیں۔
1970ء میں انہوں نے جامعہ پنجاب سے ایم اے کا امتحان پاس کیا، جس کے بعد وہ گورنمنٹ ایم اے او کالج لاہور میں اسلامیات کے لیکچرار مقرر ہوئے اور پھر تمام عمر تدریس کے پیشے سے وابستہ رہے۔
عارف عبدالمتین کا شمار اردو اور پنجابی کے اہم جدید شعرا میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ ایک نقاد کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔
ان کی شاعری کے مجموعے دیدہ و دل، آتشِ سیال، موج در موج، صلیبِ غم، اکلاپے دا مسافر، سفر کی عطا، دریچے اور صحرا اور امبر تیری تھاں کے نام سے اشاعت پزیر ہوئے۔
جبکہ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے امکانات اور پرکھ پڑچول بھی پڑھنے والوں نے بہت پسند کیے۔ پرکھ پڑچول پر انہیں پاکستان رائٹرز گلڈ کا انعام بھی ملا۔
عارف عبدالمتین کو ان کی ادبی خدمات کے صلہ میں حکومت پاکستان کی جانب سے 1992ء میں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی دیا گیا۔
عارف عبدالمتین 30 جنوری 2001ء کو ریاست ہائے متحدہ امریکا میں وفات پا گئے۔ وہ لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔
——
تصانیف
——
شاعری
خشبو دا سفر
دھوپ کی چادر
حرف دعا
موج در موج
آتشِ سیال
دریچے اور صحرا
صلیب غم
دیدہ دل
بے مثال (نعتیہ مجموعہ، 1985ء)
امبر تیری تھاں (پنجابی نعتیہ مجموعہ، 1990ء)
اکلاپے دا مسافر (پنجابی شاعری)
تنقید
امکانات
پرکھ پڑچول
——
عہد میرا مجھے پہچان نہ پایا عارفؔ از عبد الحفیظ ظفر
——
پاکستان میں کئی شعراء ایسے بھی گزرے ہیں، جنہوں نے صرف شاعری کے میدان میں ہی اپنی فنی عظمت کے جھنڈے نہیں گاڑے بلکہ ادب کی دوسری اصناف میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اُن میں ایک بہت اہم نام عارف عبدالمتین کا بھی ہے ،جنہوں نے شاعر، نقاد اور اُستاد کی حیثیت سے ایک عہد کو متاثر کیا۔
یکم مارچ 1923ء کو امرتسر (بھارت) میں پیدا ہونے والے عارف عبدالمتین ،امرتسر سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد لاہور آ گئے۔
قیام پاکستان کے بعد انہوں نے کئی ادبی جرائد کی ادارت کی، جن میں ’’ادب لطیف‘‘، ’’سویرا‘‘،’’ جاوید‘‘، ’’اوراق‘‘ اور’’ ماحول‘‘ کے نام شامل ہیں۔
وہ چشتیہ ہائی سکول میں پہلے سائنس ٹیچر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ 1970ء میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کا امتحان پاس کیا اور پھر ایم اے او کالج میں پڑھاتے رہے۔ 1983ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔
عارف عبدالمتین کا شمار اُردو اور پنجابی کے اہم جدید شعراء میں ہوتا ہے۔ ایک نقاد کی حیثیت سے بھی اُن کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اُردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں شاعری کی۔
اُن کے شعری مجموعوں میں ’’دیدہ و دل‘‘،’’ آتش سیال‘‘،’’ موج درموج‘‘،’’ صلیب غم‘‘،’’ اکلدپے‘‘ ’’دامسافر‘‘،’’ سفر کی عطا‘‘،’’ دریچے اور صحرا‘‘ اور’’ امبریتری تھاں‘‘ شامل ہیں۔
ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے ’’امکانات اور پرکھ پڑچول‘‘ بھی قارئین ادب کو بہت پسند آئے۔ ’’پرکھ پڑچول‘‘ پر انہیں پاکستان رائٹرز گلڈ کا انعام بھی ملا۔ تنقید پر اُن کی یہ کتاب سی ایس ایس کے نصاب میں بھی شامل ہے۔
اس کے علاوہ عارف عبدالمتین کے نعتیہ مجموعے ’’بے مثال‘‘ کو بھی بہت پذیرائی ملی۔
——
یہ بھی پڑھیں : میں اپنے شام و سحَر تیرے نام کرتا ہوں
——
انہوں نے زندگی بھر ادب کی خدمت کی اور اُن کی تخلیقات ادب کا گرانقدر سرمایہ ہیں۔عارف عبدالمتین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شروع شروع میں ترقی پسندادب کی طرف مائل تھے۔ بعد میں شاید انہوں نے اپنے نظریات تبدیل کرلئے، لیکن ایک انٹرویو میں انہوں نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ مارکسی نظریات سے متاثر ضرور تھے، لیکن وہ اس بات کے حق میں نہیں تھے کہ ہر ادبی فن پارے کو مارکسی نظریات کے تابع ہونا چاہیے۔ ادب کا کینوس بہت وسیع ہوتا ہے اور یہ زندگی کے ہر رنگ کو منعکس کرتا ہے۔ ادب کو زندگی کی تمام جہتوں کے ساتھ تخلیق کرنا چاہیے۔ اُن کا یہ عقیدہ تھا کہ رسول ِپاک کی تعلیمات میں زندگی گزارنے کے تمام اصول بیان کیے گئے ہیں۔ سماجی اور معاشی حوالے سے بھی ہمیں وہ کچھ ملتا ہے کہ کسی اور طرف دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ جیسا احمد ندیم قاسمی سے ایک بار پوچھا گیا کیا آپ کمیونسٹ ہیں ،تو انہوں نے جواب میں کہا:
کمیونسٹ تو نہیں ہوں بلکہ مسلمان ہوں، لیکن میری مسلمانی میں ترقی پسندی کی پرچھائیاں ملتی ہیں۔
پھر انہوں نے اپنا یہ شعر بھی پڑھا:
——
بھیک مانگے کوئی انسان تو چیخ اٹھتا ہوں
بس یہ خامی ہے مرے طرزِ مسلمانی میں
——
عارف عبدالمتین کا فلسفہ حیات بھی یہی تھا۔ وہ سماجی اور معاشی انصاف کو بہت اہمیت دیتے تھے۔عارف عبدالمتین کی شاعری کے بہت سے رنگ ہیں، بہت سی جہتیں ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کے تجربات کو جس ہنرمندی سے اشعار کا لباس پہنایا ہے، وہ انتہائی قابل تحسین ہے۔ ان کے شاعری میں جمالیاتی اور شعری طرز احساس بھی ہے اور فکر کی گہرائی بھی۔ فیض احمدفیض ؔاور احمد ندیم قاسمی اُن کے استادوں میں سے تھے۔ ساحرؔ لدھیانوی اور حمید اختر سے بھی اُن کی دوستی رہی۔ سعادت حسن منٹو کا افسانہ جب انہوں نے ’’جاوید‘‘ میں شائع کیا تو ان پر اور منٹو صاحب پر مقدمہ چلایا گیا۔ سعادت حسن منٹو نے اس مقدمے کی پوری تفصیل اپنے مضمون ’’زحمت مہر درخشاں‘‘ میں بیان کی ہے۔عارف عبدالمتین جس عہد میں زندہ رہے، انہوں نے اس کے آشوب کو پوری طرح اپنی شاعری کی زبان دی۔ وہ خواب ضرور دیکھتے تھے، لیکن ان کے خواب بہت حسین ہوتے تھے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ وہ حیات افروز رجائیت کے قائل تھے اور یہی رجائیت انہیں بدترین حالات میں بھی مایوسی کے اندھیروں سے بچائے رکھتی تھی۔ انہوں نے عمربھر رزق حلال کمایا اور اکثر اوقات معاشی تنگدستی کا بھی سامنا کیا، لیکن کبھی شکایت کا ایک حرف بھی ان کی زباں پر نہیں آیا۔
ایک بار ان سے پوچھا گیا کہ احمد فراز نے اپنے شعر میں یہ کیوں کہا:
——
میں نے دیکھا ہے بہاروں میں چمن کو جلتے
ہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا
——
تو انہوں نے کہا احمد فراز کی اپنی سوچ ہے۔ میں تو سنگین ترین حالات میں بھی بہاروں میں چمن کو جلتے نہیں دیکھوں گا بلکہ مجھے ہر طرف پھول ہی نظر آئیں گے۔
بہرحال یہ اپنا اپنا طرز فکر ہے۔ عارف صاحب نے معروضی حقائق سے کبھی چشم پوشی نہیں کی۔ وہ اس نظریے کے حامل تھے کہ ایسا کرنا بددیانتی کے مترادف ہے۔ ان کی ایک غزل کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
——
زمیں سے تابہ فلک کوئی فاصلہ بھی نہیں
مگر افق کی طرف کوئی دیکھتا ہی نہیں
مجھے تو عہد کا آشوب کر گیا پتھر
میں درد مند کہاں، درد آشنا بھی نہیں
——
جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ عارف صاحب کی شاعری کی بہت سی جہتیں ہیں۔ ان کی شاعری میں ہمیں بعض اوقات ایسے اشعار بھی ملتے ہیں جن میں شاعر نے اپنی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔عارف عبدالمتین بڑئے وسیع النظر اور وسیع القلب انسان تھے۔ جب ہمارے کچھ ترقی پسند شاعر نثری نظم کی مخالفت کر رہے تھے تو انہوں نے اس کی وکالت شروع کردی اور پھر خود بھی بڑی فکرانگیز نثری نظمیں تحریر کیں۔ ان کی نثری نظم جس تخلیقی تجربے کی حامل ہے۔ اسے معاشرتی سیاق و سباق سے الگ نہیں کہا جا سکتا۔ ان کی نثری نظمیں پڑھ کر بھی قاری اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ تلخیوں کا زہر پی کر بھی وہ اپنے معتدل مزاج رویے سے جدا نہیں ہوتے۔ وہ سچائی کی آبرو بن کر ابھرتے ہیں۔
ذیل میں ان کی نثری نظم ’’ میں سقراط ہوں‘‘ ملاحظہ کریں:
——
میں سقراط ہوں
ایتھنز کے رب مجھے مجرم قرار دے رہے ہیں
کیونکہ ان کے نزدیک میرے خیالات نوجوانوں کے اخلاق بگاڑتے ہیں
موت کا خوف مجھے صداقت کے بے محابہ اظہار سے نہیں روک سکتا۔
——
عارف عبدالمتین بہت حلیم الطبع اور منکسرالمزاج شخص تھے اور بے حد حساس تھے۔ یہ حساسیت اُن کی شاعری میں بھی جا بجا نظر آتی ہے۔ وہ ایک مخلص، دیانتدار اور انسان دوست شخص تھے۔ مقام رنج ہے کہ اُن کی وفات کے بعد انہیں بری طرح نظرانداز کیا گیا۔ کیا ایسے شاندار لوگ نظرانداز کیے جا سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔
30 جنوری2001ء کو عارف عبدالمتین طویل علالت کے بعد خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی ادبی خدمات کبھی نہیں بھلائی جاسکتیں۔
——
نمونۂ کلام
——
تیرہ و تار خلاؤں میں بھٹکتا رہا ذہن
رات صحرائے انا سے میں ہراساں گزرا
——
ہمیں نے راستوں کی خاک چھانی
ہمیں آئے ہیں تیرے پاس چل کے
——
تتلیاں رنگوں کا محشر ہیں کبھی سوچا نہ تھا
ان کو چھونے پر کھلا وہ راز جو کھلتا نہ تھا!
——
کبھی خیال کے رشتوں کو بھی ٹٹول کے دیکھ
میں تجھ سے دور سہی تجھ سے کچھ جدا بھی نہیں
——
وفا نگاہ کی طالب ہے امتحاں کی نہیں
وہ میری روح میں جھانکے نہ آزمائے مجھے
——
ہم بھی ناداں ہیں سمجھتے ہیں کہ چھٹ جائے گی
تیرگی نور کے پیکر میں سمٹ جائے گی
لوگ کہتے ہیں محبت سے تمنا جس کو
میری شہ رگ اسی تلوار سے کٹ جائے گی
تم جسے بانٹ رہے ہو وہ ستم دیدہ زمیں
زلزلہ آئے گا کچھ ایسا کہ پھٹ جائے گی
قید ہوں گنبد بے در میں مری اپنی صدا
مجھ تک آئے گی مگر آ کے پلٹ جائے گی
بانٹ جی بھر کے اسے دہر کے محروموں میں
پیار دولت تو نہیں ہے کہ جو گھٹ جائے گی
باد صرصر سے نہ گھبرا کہ یہ چل کر عارفؔ
کتنے چہروں سے نقابوں کو الٹ جائے گی
——
چھپائے دل میں ہم اکثر تری طلب بھی چلے
کبھی کبھی ترے ہم راہ بے سبب بھی چلے
نمود گل کے کرشمے سدا جلو میں رہے
نسیم بن کے چلے ہم چمن میں جب بھی چلے
جلاؤ خون شہیداں سے ارتقا کے چراغ
یہ رسم چلتی رہی ہے یہ رسم اب بھی چلے
سنا ہے جادہ نوردان صبح کے ہم راہ
بہ فیض وقت کئی رہروان شب بھی چلے
ہے شور شبنم آسودگی کے دوش بدوش
گل آج لے کے کہیں شعلۂ غضب بھی چلے
کسی کا حکم زبان بندیٔ جنوں بھی چلا
کسی کے قصے سخن بن کے زیر لب بھی چلے
ہمیں نے ساغر غم منتخب کیا عارفؔ
وگرنہ بزم میں کچھ ساغر طرب بھی چلے
——
میں جس کو راہ دکھاؤں وہی ہٹائے مجھے
میں نقش پا ہوں کوئی خاک سے اٹھائے مجھے
مہک اٹھے گی فضا میرے تن کی خوشبو سے
میں عود ہوں کبھی آ کر کوئی جلائے مجھے
چراغ ہوں تو فقط طاق کیوں مقدر ہو
کوئی زمانے کے دریا میں بھی بہائے مجھے
میں مشت خاک ہوں صحرا مری تمنا ہے
ہوائے تیز کسی طور سے اڑائے مجھے
اگر مرا ہے تو اترے کبھی مرے گھر میں
وہ چاند بن کے نہ یوں دور سے لبھائے مجھے
وہ آئینے کی طرح میرے سامنے آئے
مجھے نہیں تو مرا عکس ہی دکھائے مجھے
امنڈتی یادوں کے آشوب سے میں واقف ہوں
خدا کرے کسی صورت وہ بھول جائے مجھے
وفا نگاہ کی طالب ہے امتحاں کی نہیں
وہ میری روح میں جھانکے نہ آزمائے مجھے
——
زمیں سے تا بہ فلک کوئی فاصلہ بھی نہیں
مگر افق کی طرف کوئی دیکھتا بھی نہیں
سنا ہے سبز ردا اوڑھ لی چمن نے مگر
ہوا کے زور سے برگِ خراں گرا بھی نہیں
بہت بسیط ہے دشتِ جفا کی تنہائی
قریب و دور کوئی آہوئے وفا بھی نہیں
مجھے تو عہد کا آشوب کر گیا پتھر
میں درد مند کہاں درد آشنا بھی نہیں
کبھی خیال کے رشتوں کو بھی ٹٹول کے دیکھ
میں تجھ سے دور سہی تجھ سے کچھ جدا بھی نہیں
قدم قدم پہ شکستوں کا سامنا ہے مگر
یہ دل وہ شیشۂ جاں ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں
مرے وجود میں برپا ہے اس خیال سے حشر
جو میرے ذہن میں پیدا ابھی ہوا بھی نہیں
میں جس کے سحر سے کوہِ ندا تک آ پہنچا
وہ حرف ابھی مرے لب سے ادا ہوا بھی نہیں
میں ایک گنبدِ بے در میں قید ہوں عارف
مری نوا کا سفر ورنہ بے ردا بھی نہیں
——
نظم : گلدان
——
سالہا سال بیابان گماں کو سینچا
خون ادراک سے آب جاں سے
تب کہیں اس میں ہویدا ہوئے افکار کے پھول
پھول جن کو مرے بیٹے تری فرحت کے لئے
شیشۂ روح کے گل داں میں سجا لایا ہوں
اور چپکے سے یہ گل داں میں نے
رکھ دیا ہے تری پڑھنے کی نئی میز پہ یوں
جیسے اس میز کی تکمیل تھی اس کی محتاج
اور سمجھتا ہوں کہ ان پھولوں کی نادیدہ حسیں خوشبو سے
تیرے کمرے کی ہر اک چیز مہک اٹھی ہے
کون جانے کہ مری سوچ مرے زعم کی گلکاری ہو
فکر کی شعبدہ بازی ہو تصور کی طلب گاری ہو
اور تو سیٹی بجاتا ہوا کمرے میں ہو داخل تو تجھے
اجنبی باس کا کرب
یک بیک سانس کے رکنے کی اذیت سے ہم آغوش کرے
اور جھنجھلا کے تو گل داں کو دریچے سے پرے
پھینک دے جادۂ سنگیں کی طرف
پس دیوار کھڑا
میں سنوں ٹوٹتے گل داں کی صدا
اور مرے کانپتے ہونٹوں سے اٹھے
تیرے احساس کی برنائی کے بے ٹوک پنپنے کی دعا
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ