اردوئے معلیٰ

Search

آج دُخترِ اردو اور ادب کی خوشبو محترمہ عذرا نقوی کا یومِ پیدائش ہے

عذرا نقوی
( تاریخ پیدائش: 22 فروری 1952ء)
——
دختر ِ اردو محترمہ عذرا نقوی کی کثیرالوصف شخصیت اور فکروفن کے کیا کہنے۔ان کے تخلیقی ، تصنیفی ، صحافتی اور ادبی رنگ دیکھ کر زمانہ دنگ ہے۔ یہ ایک صاحب ِ طرز شاعرہ ، آواز کی دنیا کی ملکہ ، منجھی ہوئی ادیبہ،کانوں میں رس گھولنے والی صداکارہ،دل کے تار ہلادینے والی کہانی کار، روشن خیال میڈیا ویمن ،فری لانس جرنلسٹ ،اردو اور انگریزی زبانوں کے اخبارات و جرائدکو اپنی نگارشات سے نوازنےوالی تخلیق کار گیانی ،درس و تدریس کی ماہرہ ، مایہ ء ناز مصنفہ ، ممتاز مترجم ، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی پروردہ،خوبصورت شخصیت کی مالکہ، اور خوش آواز اناؤنسرکی حیثیت سے دیس دیس میں نام، مقام اور احترام کمانے کے بعد اب بائیس ولیوں کی چوکھٹ دلی سے اپنا رشتہ بحال کر چکی ہیں۔یہ وہی شہر ہےجو عالم میں انتخاب اورتہذیبی وراثت کاامین ہونے کےباعث لاجواب ہے۔ میرے اندر کا ظفر معین بلےجعفری مجھے بار بار کہہ رہا ہے کہ کچھ شعری زبان میں بھی بات کرو۔اس سخن فہم ، سخن شناس اور سخن نواز شخصیت کے چاہنے والوں کو بھی اچھا لگے گا۔ چنانچہ اسی فرمائش پر میں ایک نظم دختر ِ اردو کےنام کررہاہوں ۔ جس کاعنوان ہے۔ دختر ِ اردو ہیں اپنی ذات میں اِک انجمن ۔ اس نظم میں آپ کو محترمہ عذرا نقوی کی ادبی خدمات کی کچھ جھلکیاں بھی نظر آئیں گی۔ اب آپ نظم ملاحظہ فرمائیے۔
——
نظم، دُخترِ اردو از ظفر معین بلے جعفری
——
حکمت و دانش کی دُنیا، ملکہ ء اقلیم ِفن
دُختر ِ اردو ہیں اپنی ذات میں اِک انجمن
شاعرہ بھی ہیں ، ادیبہ بھی ، صداکارہ بھی ہیں
ہے جداگانہ یقیناً اِن کا ہر رنگ ِ سُخن
ترجمے کرکےبھی دُنیا میں مچارکھی ہے دُھوم
بخشا انگریزی ادب پاروں کو اردو پیرہَن
ہے نظامت نام گل افشانیء گفتار کا
سُن کے باتیں آپ کی ، جی اُٹھّے ہیں ارباب ِ فَن
امروہہ کی شان تھیں، پر اب ہیں دِلّی کی بھی جان
ریختہ کی آبرو ، ہے آپ پر نازاں وطن
ملکوں ملکوں آپ نے جاکر کمایا ہے مقام
ہے ادب میراث ان کی ، پارسائی ان کادَھن
جادہ ء فکرو نظر پر چھوڑے ہیں اَن منٹ نقوش
رنگ لے آئی ادب سے عذرا نقوی کی لگن
——
محترمہ عذرا نقوی کو اردو اور انگریزی دونوں زبانوں کے الفاظ سے کھیلنا خوب آتاہے ۔یہ دُختر ِ اردوہیں اور انہوں نے اپنی ماں بولی کی تخلیقی توانائیوں کوسامنے لانے اورپروان چڑھانے کیلئےجوکوششیں شبانہ روز کی ہیں ، وہ کسی بیان کی محتاج نہیں ۔الفاظ اور آواز میں جو طاقت ہے، وہ کسی اور شے یاہنر میں دکھائی نہیں دیتی ۔ یہ دونوں دنیاؤں میں اپنی آواز اور الفاظ کی بنیاد پر کئی دہائیوں سے چھائی ہوئی ہیں ۔ جہاں جہاں ریختہ بولی، پڑھی ، سنی اور سمجھی جاتی ہے، وہاں وہاں محترمہ عذرا نقوی کے نام کا ڈنکا بج رہاہے۔ یہ چند سطور لکھنے کےبعد میرے اندر کاشاعراپنے جذبوں کو شعروں کی زبان دینے کیلئے ایک بار پھر مجھے اُ کسارہا ہے۔لہذا پہلے میرے اندرکے ظفر معین بلے کی آواز سن لیں ۔ پھر باقی باتیں اس نظم دختر ِ اردو کے بعد ہوں گی۔
——
نظم ، ادب کی آبرو از ظفر معین بلے جعفری
——
دُختر ِ اردو ہیں یہ بے شک ، ادب کی آبرو
روشنی پھیلا رہی ہیں ریختہ کی چارسو
اِک زمانہ معترف ہے آپ کی خدمات کا
عذرا نقوی سرخرو ہیں ، ریختہ بھی سرخ رو
قابل ِ تحسین ہیں سب کارنامے آپ کے
دیدنی ہے آپ کا یہ نظم و ضبط ِ رنگ و بو
ریختہ کے داماں کو بخشی ہے وسعت آپ نے
چرچاہے اس بات کا گلشن بہ گلشن، کوبہ کو
آپ کے اوصاف کوکیا نام دوں کہ آپ ہیں
نیک فطرت، نیک سیرت،نیک عادت ، نیک خُو
اِک لڑی میں سارے موتی ہی پِرو کے رکھ دئیے
ہے یہ مالا کارنامہ، ریختہ ، گویا گلو
ہوں بہت سے پہلوجس کی شخصیت کے اے ظفر
سوچ لو کیا ہوسکے گی ،تم سے اُن پر گفتگو
——
محترمہ عذرا نقوی کی بہت سی غزلیں، نظمیں اور دیگر تخلیقی نگارشات میرے سامنے ہیں۔قدیم اور جدید رجحانات کے امتزاج نے ان کے شعری لب و لہجے کوبلاشبہ ایک ایسی دل کشی بخشی ہے جوقارئین کےدامن ِ دل و نگاہ کواپنی طرف کھینچتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ترجمہ نگاری میں بھی انہوں نے اپنے جوہر خوب دکھائے ہیں۔ سعودی عرب میں قیام کےدوران اعلیٰ پائے کے انگریزی ادب نےانہیں متاثرکیااورانہوں نے ان تمام موتیوں کوچُن چُن کردامن ِ اردو میں سمیٹ لیاہے۔اجنبی زبان کے ادب کو اپنی مادری زبان کےقالب میں ڈھالنا آسان نہیں بلکہ جوئے زیرلانے کے مترادف ہے۔یہ اُسی وقت ممکن ہے جب ترجمہ نگارکودونوں زبانوں پرغیرمعمولی قدرت حاصل ہو۔دُختر ِ اردو نے یہ ثابت کیاہےکہ ایسا ہی ہے۔انہیں دونوں زبانوں پرجودسترس حاصل ہے،اس کی گواہی ان کی کاوشوں سےبھی ملتی ہے ۔ لگتاہے قلم کاروں کے ساتھ ساتھ ادب سے محبت انہیں گھٹی میں ملی ہے۔ان کے والد ِ بزرگوار حسین احمد قیصر نقوی بھی قلم کاروں سے محبت کرتے تھے۔ادب کی ترویج اور ریختہ کی ترقی کاجوراستہ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دختر ِ اردو کو سُجھایا تھا،محترمہ عذرا نقوی اُسی پر گامزن ہیں۔اسی تربیت کانتیجہ ہے کہ انہوں نے دیس بدلے، علاقے بدلے، ٹھکانے بدلے لیکن انہوں نے اپنی روش کبھی نہیں بدلی۔سعودی عرب کی قلم کارخواتین کی منتخب کہانیاں ” وائسز آف چینج "کوانگریزی سے اردو زبان میں بڑی استادانہ چابک دستی کے ساتھ ڈھال دیا ۔ سعودی عرب کےادب ِ عالیہ کیلئے نامور ادیبوں کی مقبول نگارشات کےجوتراجم انگریزی زبان میں کئے گئے تھے، محترمہ عذرا نقوی نے انہیں بھی اپنے نشانے پر لئے رکھا اور آہستہ آہستہ انہیں اردو زبان کے سپرد کرکے اپنی شہرت کو چار چاند لگائے ۔ ” میرے شب و روز "کےعنوان کے تحت مشہور و معروف سعودی صحافی احمد السباعی کی سوانح حیات "مائی ڈیز اِن مکّہ ” کے انگریزی ترجمے کا اردو میں ترجمہ بھی ایک خاصے کی چیز ہے،جس پر انہیں اہل ِ علم ادب نے جی کھول کر داد دی ۔یہی نہیں بہت سے ناولوں ، سوانح عمریوں ، خود نوشتوں ، کہانیوں اور افسانوں کے اقتباسات کو بھی دختر ِ اردو نے اپنی زبان کےقالب میں ڈھالا اور اردو اد ب کےقارئین ِ کرام کی ضیافت ِ طبع کااہتمام کیا۔یہ خوبصورت تراجم بہت سے اخبارات و جرائد کی زینت بنے اور یوں محترمہ عذرا نقوی کی شہرت اور مقبولیت کادائرہ خوشبو کی طرح بڑھتا اور پھیلتا چلا گیا۔وہ دیس دیس میں رہیں اور جہاں جہاں رہیں ، ادیبوں ، شاعروں ، دانش وروں اور تخلیق کاروں کاحوصلہ بڑھاتی رہیں ۔ انہیں ” ڈو ۔مور ” کیلئے اُکساتی رہیں ۔کاروان ِ ادب کے ذوق و زوق کوجگاتی رہیں ۔علم و عرفان کے دیپ جلاتی رہیں۔ تشنگان ِ ادب کی پیاس بجھاتی رہیں اور افکار و خیالات کی روشنی پھیلا کر راستوں کو جگمگاتی رہیں ۔دختر ِ اردو نے انگریزی زبان سے اردو زبان میں محض تراجم نہیں کئے بلکہ لکھاریوں کی ترجمانی کاحق بھی ادا کیاہے۔اور نگارشات کے معنوی حُسن و رعنائی کوبرقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی تخلیقی اور فکری توانائیوں کو بروئےکارلاکر ان میں نیا رنگ بھی بھر دیا ہے۔ہرچند کہ اس حوالے سے ان کا بہت ساکام ابھی سامنے نہیں آیا، لیکن جو کچھ بھی سامنے آیا ہے، وہ قابل ِ ستائش ہے۔اگر مجھے دُختر ِ اردو اور ریختہ کی آبرو محترمہ عذرا نقوی اجازت دیں تو میں ان سے یہ فرمائش ضرور کروں گا کہ وہ اپنے اس وقیع کام کو بند صندوقوں سے نکال کر ترجیحی بنیادوں پر سامنے لائیں تاکہ قارئین ِ اردو ادب بھی ان سے مستفیض ہوسکیں ۔
——
یہ بھی پڑھیں : عید کی صبح اکیلی ہے مرے کمرے میں
——
محترمہ عذرا نقوی جون ایلیا کے شہر امروہہ کی بیٹی ہیں اور کینڈا ، سعودی عرب کے ساتھ ساتھ مشرق ِ وسطیٰ کے کئی ملکوں میں برسوں علم وعرفان کے چراغ روشن کرنے کےبعد اب بھارتی دارالحکومت دلی میں آن بسی ہیں ۔دِلی بائیس خواجگان کی چوکھٹ اور ادب و تہذیب کاگہوارہ ہے۔بڑی بڑی ہستیوں نے اس کی آن بان اور شان بڑھائی اورزندگی کے بہت سے شعبوں میں اپنی خدمات کی بنیاد پر اسے نئی پہچان بھی عطاکی ہے۔امروہہ بھارت کی شمالی ریاست اُترپردیش کا مردم خیز شہر اور نامور ہستیوں کامسکن رہا ہے اور آج بھی ہے۔ دلی اور امروہہ ایک دوسرے سے 130کلومیٹر کی دوری پر ہیں لیکن ان دونوں شہروں کے باسیوں کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں ۔عذرا نقوی کو اپنے آبائی شہر امروہہ سے بڑاپیارہے۔ان کے شعروں میں بھی امروہہ کی مہک محسوس ہوتی ہے ۔انہیں جون ایلیا کی شاعری بھی بے حد پسند ہے ۔ اسی لئے انہوں نے جون ایلیا کی نذر اپنی ایک غزل کی ہےاور اس حقیقت کااعتراف بھی کیا ہے کہ جون ایلیا کی نذر کی جانے والی اس غزل ِمسلسل میں انہیں اپنے وطن ِ عزیز امروہہ کی جھلک نظر آتی ہے۔آپ یہ غزل پڑھئے اور سردُھنئے۔ محترمہ عذرا نقوی کے لب و لہجے میں امروہہ جذبوں کی طرح دھڑکتا محسوس ہورہاہے۔ یہ شہر انہیں اپنے سانسوں میں بسا ہوا بھی دکھائی دے رہاہے اور اجنبی اجنبی بھی۔اس لئےکہ جس شہر میں ان کااپنا آشیا ں تھا ،وہاں ڈھونڈے سے بھی اب کوئی انہیں اپنا آشنا نظر نہیں آرہا۔ محراب و در تو شکستہ ہوچکے ہیں لیکن ابھی محترمہ عذرا نقوی کے ذہن سے اس شہر کانقشہ محو نہیں ہوا۔ان کی بے قراری اسی لئے بڑھتی جارہی ہے کہ جودور وہ اس شہر کے گلی کوچوں میں چھوڑ کر گئی تھیں ،وہ انہیں کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔اسی لئے وہ سفاک ہجرت سے واپسی پر خود کو یاددلانےپر مجبور ہیں کہ کبھی گزرا زمانہ لوٹتانہیں ہے۔اب آپ ان کی یہ غزل دیکھئے۔،آپ کو شاعرہ کے زخموں کے لب کھلتے محسوس ہوں گے۔
——
نظم جون ایلیا کی نذر ، ایک مسلسل غزل
{جو اُن کے اور میرے وطن امروہہ کے لہجے کی جھلک دکھاتی ہے}. .
——
یہ دل بس میں کبھی میرے رہا نئیں
کبھی یادوں کا دامن چھوڑتا نئیں
بھُلائیں کیسے امروہے کی گلیاں
ابھی لہجے سے امروہہ گیا نئیں
یہیں گُم کردہ اپنا آشیاں تھا
جہاں باقی کوئی اب آشنا نئیں
شکستہ ہوچکے محراب و دَر سب
ابھی تک ذہن سے نقشہ گیا نئیں
ہمارے نام کی تختی نہیں ہے
مگر وہ گھر تو خوابوں سے گیا نئیں
میں سمجھوں ہوں، تمہاری بے قراری
میاں! گذرا زمانہ لوٹتا نئیں
کسی سفاک ہجرت کے ستم سے
زمیں سے اپنا رشتہ ٹوٹتا نئیں
تمہاری شاعرانہ بے خودی کو
کسی سرحد پہ کوئی روکتا نئیں
بہت تھی دُھوم جشنِ ریختہ میں
تمہارے نام کی ، تم نے سُنا نئیں
تمہاری شاعری پر سر دُھنیں ہیں
مگر یہ لوگ اُردو آشنا نئیں
پڑی ہے شاعر ی گھٹّی میں عذرا
مگر کچھ معبتر اب تک کہا نئیں
——
دلی اور امروہہ کے ساتھ ساتھ علی گڑھ سے بھی دختر ِ اردو محترمہ عذرا نقوی کی بہت سی خوشگوار یادیں وابستہ اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے پیوستہ ہیں ۔ علی گڑھ یونیورسٹی کا ذکر خیر میں نے اپنے والد بزرگوار سید فخرالدین بلے علیگ سےبہت سنا بلکہ جب بھی کوئی نامور ادبی شخصیت علی گڑھ سے داتا کی نگری یا مدینۃ الاولیا ہمارے گھرآتی تو علی گڑھ یونیورسٹی کی یادوں اور باتوں کے دفتر کھل جایاکرتے تھے۔میرے والد بزرگوار نے بھی برسوں اس یونیورسٹی میں تعلیم و تربیت حاصل کی تھی اورعلی گڑھ ہی کی ایک نامور شخصیت ڈاکٹر فوق کریمی علیگ کے مطابق اس یونیورسٹی کے دواساتذہ اکثر یہ کہاکرتے تھےکہ وہ اشعار علامہ اقبال کے ہوہی نہیں سکتے جو سید فخرالدین بلے کو یاد نہیں ۔یہ ایک جملہ ء معترضہ ہے ورنہ بات تو دختر اردو محترمہ عذرا نقوی کی ہورہی ہے۔ جن کی جڑیں اس شہرہء آفاق یونیورسٹی کی زمین میں بہت گہری اُتری ہوئی ہیں ۔ان کے شعور نے اسی نامور یونیورسٹی کی فضاؤں میں آنکھ کھولی، یہیں پلی بڑھِی ، پڑھی اور پروان چڑھیں۔ ان کی شخصیت کی تعمیر اور کردار کی تشکیل میں مسلم یونیورسٹی نے بڑا کلیدی کردار اداکیاہے اوران کاہررنگ ،ڈھنگ اور آہنگ مجھے اس کی گواہی دیتا محسوس ہورہاہے ۔مجھے حیرت ہوتی ہے کہ دختر ِ اردو نے تعلیم تو سائنسی مضامین کے ساتھ حاصل کی ہے اور ایم۔ ایس سی ۔اے ۔ایم یو ۔علی گڑھ سے کیا ہے لیکن اپنے رنگ دنیائے ادب میں بھی جمائے اور دکھائے ہیں ۔انہوں نے ایم فل ۔جے این یو ۔دہلی سےاور ڈپلوما ان ایجوکیشن ۔کنیڈا سےکیا ۔کتب بینی ان کاشوق اورفکرو خیال کوالفاظ کاملبوس عطاکرنا ان کاذوق ہے۔ ڈگریاں اور اعزازت سمیٹنے کے باوجود ان کا سفر تھما نہیں بلکہ جوش و خروش کے ساتھ جاری ہے ۔ادب اورتعلیم کے بہت سے شعبوں میں انہوں نے اپنے شاگردوں کو علم و عرفان کی دولت سے مالامال کیا اور نسل ِ نو میں آتش ِ شوق کو بہ انداز ِ دگر بھڑکا کر کمال کیا ہے۔
ہواکے دوش پران کی آواز دیس دیس میں پہنچی ہے۔آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس میں اناؤنسرکی حیثیت سےانہوں نے اپنی صداکاری کے جوہردکھائے ہیں۔کنیڈا میں بھی کمیونٹی ریڈیو سے وابستگی نے انہیں مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچایا۔اب وہ آسمان ِ شہرت پر ایک درخشندہ ستارے کی طرح جھلملارہی ہیں ۔ان کےانداز،بلندی پر پرواز اور تیور بتارہے ہیں کہ وہ جس آسمان کو چھولیں ، اسے زمین بناکر نئے آسمان کی تلاش شروع کردیتی ہیں۔ان کاتخلیقی، ،تصنیفی، تحقیقی اورجمالیاتی سفر جاری ہے اور جو نقوش انہوں نے جادہء ادب پر مرتسم کئے ہیں ،وہ ان کی کامیابیوں کی گواہی دیتے نظرآرہے ہیں ۔ان کی شہرت کی خوشبو صرف بھارت، پاکستان، کینیڈا،اور سعودی عرب تک محدود نہیں،جہاں جہاں اردو ہے، وہاں وہاں اس دختر ِ اردو کی مہک اور اس کثیرالجہت شخصیت کے دلکش رنگ دیکھے جاسکتے ہیں ۔اب پھر میرے اندر کاشاعر ان کی شخصیت ، فن ، اور خدمات کو تحسین و آفرین کے گلاب پیش کرنے کیلئے مجھے شعری زبان میں اس مضمون کو جاری رکھنے پر اُکسا رہا ہے لہٰذا جو اشعار بی البدیہہ زبان ِ قلم پر آگئے ہیں ، پہلے آپ انہیں سماعت فرمالیں ، پھر باقی کچھ باتیں نثری پیائے میں ہوں گی۔
——
آنگن جب پردیس ہوا تو دل کے موسم بدلے ہیں
بدل گئی ہےدنیا لیکن آپ بہت کم بدلے ہیں
دیس دیس میں پہنچی ہوا کےدوش پہ یہ دلکش آواز
لکھیں کتابیں ، شعر کہے ہیں، شوق کے عالم بدلے ہیں
نام کمایا ہے درس و تدریس میں عذرا نقوی نے
یوں بھی کھلا کر پھول ادب آنگن کے موسم بدلے ہیں
شعر، کتابیں یادیں سرمایہ ہیں دُختر ِ اردو کا
کوئی نہیں کہہ سکتا ادب کے رنگ بہت کم بدلے ہیں
خوب تراجم کو بھی سجایا ہے تخلیقی رنگوں سے
خوب نظامت فرمائی ، انداز بھی پیہم بدلے ہیں
آپ ادب کی آبرو بھی ہیں ، ریختہ کی پرچارک بھی
جہاں جہاں بھی آپ گئیں ، اُس دیس کے موسم بدلے ہیں
سوچ رہاہوں ظفر بتاؤ ، اُسے سلامی کیسے دوں
علم و ادب کے منظر نامے، جس نے ہردم بدلے ہیں
ظفر معین بلے جعفری
——
دختر ِ اردو محترمہ عذرا نقوی نے کہاں کہاں دولتِ علم و حکمت سمیٹی۔کون کون سی کتابی لکھیں؟ ادب، فن اور درس و تدریس کی دنیا میں کون کون سے نقوش چھوڑے ؟ ان کا اختصار کے ساتھ ذکر کئے بغیر یہ مضمون یقیناً ادھورا ہی رہےگا۔ اس لئے ان کے بارے میں جواہم باتیں اس حوالےسے میں نے سنی یا گلشن ِ ادب سے پھولوں کی طرح چُنی ہیں ، انہیں ایک گلدستے کی شکل دے کرآپ کےسپرد کررہاہوں ۔آپ بھی ان سے اپنے مشام ِ دل و جاں کو معطر کرسکیں گے۔
اب دُخترِ اردو اور ادب کی خوشبو محترمہ عذرا نقوی صاحبہ کے سوانحی خاکے کی چند جھلکیاں ملاحظہ ہوں
——
ادبی نام : عذرا نقوی ۔
مکمل نام : عذرا قیصر نقوی
پیدائش۔22۔فروری1952۔،دہلی
ابائی وطن : آمروہہ ۔
والد کا نام : حسین آحمد قیصر نقوی
محترمہ عذرا نقوی کے والد گرامی حسین احمد قیصر نقوی صاحب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی AMU میں سوشل ایجوکیشن آفیسر تھے ۔ ،1957 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ سے علی گڑھ آئے تھے ۔
اس کے بعد وہیں رہے۔
——
تعلیم اور تعلیمی ادارے
——
تعلیم : ایم۔ ایس سی ۔اے ۔ایم یو ۔علی گڑھ
ایم فل ۔جے این یو ۔دہلی
ڈپلوما ان ایجوکیشن ۔کنیڈا
——
مطبوعات
——
شعری مجموعہ ۔دل کے موسم
افسانوی مجموعہ
آنگن جب پردیس ہوا
اخباری کالم۔اور مضامین کامجموعہ
“جہاں بنا لیں اپنا نشیمن”
مضامین اور انشائیوں کا مجموعہ
” شعر ۔کتابیں۔ یادیں”
تراجم (انگریزی سے اردو )
محترمہ عذرا نقوی کی ترجمہ نگاری کے حوالے سے خدمات
voices of change
میں شامل سعودی خواتین کی لکھی ہوئ کہانیاں انگلش سے اردو میں ترجمہ کیں
میرے شب و روز ۔
احمد السباعی کی خود نوشت کے انگریزی ترجمے
My days in Mekkah
سے اردو میں ترجمہ کی۔
اس کے علاوہ
سعودی عرب کے ادب کی ضخیم antholoy کے انگریزی ترجمے ”
Beyond the Dunes
سے متعدد ناولوں کے اقتباس۔ سوانحی تحریریں
اور کہانیاں اردو میں ترجمہ کیں جو مختلف ادبی رسائل میں شاٹع ہوئیں
“سعودی عرب کی قلمکار خواتین کی منتخب کہانیاں”
” میرے شب وروز ” مشہور سعودی صحافی احمد السباعی کی سوانح
——
ترتیب و تدوین :
محترمہ عذرا نقوی صاحبہ نے قادرالکلام شاعرہ محترمہ سیدہ فرحت صاحبہ کی کلیات مرتب کرکے اپنی والدہ ماجدہ سیدہ فرحت صاحبہ کا خوبصورت اور جاندار و شاندار کلام کو
” کلیات سیدہ فرحت” کے نام سے یکجا کیا۔
والدہ سیدہ فرحت کی کلیات مرتب کرکے محترمہ عذرا نقوی صاحبہ نے اپنی والدہ ماجدہ کی اس طور بھی خدمت کا فرض ادا کیا ۔ اور ایک اہم ادبی قرض بھی چکتا کیا۔
شادی کے بعد اپنے شوہر مرحوم ڈاکٹر پرویز احمد کے ساتھ 38 برس کنیڈا اور مشرق وسطیٰ میں گذار کر واپس ہندوستان آگئ ہیں ۔ پچھلے دس سال سے گریٹر نوئیڈا ( نزد دہلی) میں قیام پذیر ہیں ۔
اردو کی مشیور ویب سائٹ ریختہ” سے منسلک ہیں۔ اور اہم ذمہ داریاں نبھارہی ہیں
——
آواز کی دنیا کی عذرا نقوی
——
ہندوستان ، کنیڈا اور سعودی عرب میں مختلف تعلیمی اداروں میں درس وتدریس سے وابستہ رہی ہیں۔
آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس میں اناؤنسر رہی ہیں۔ کنیڈا میں بھی کمیونٹی ریڈیو سے منسلک رہی ہیں ۔
مانٹریال کے قیام کے دوران ساؤتھ ایشیا کمیونٹی سینٹر برائے خواتین اور “تیسری دنیا“ نامی تھیڑ گروپ کے قیام میں فعال کردار ادا کیا ۔
جدہ سے شائع ہونے والے اردو روزنامے ” اردو نیوز “ اور انگریزی روزنامے ” سعودی گزٹ“ میں آزاد(فری لانس جرنلسٹ)صحافی کے طور پر شاندار خدمات انجام دیں
سعودی عرب کی تنظیم “ہم ہندوستانی” کی جانب سے ” دختر اردو ” کے خطاب و اعزاز سے نوازی گئی ہیں ۔
اب دختر اردو ، ریختہ کی آبرو محترمہ عذرا نقوی کے خوبصورت کلام کی کچھ جھلکیاں آپ کو دکھانا ضرور چاہوں گا تاکہ آپ دیکھیں تو آپ کادل گواہی دے کہ میں ان کی شخصیت کےرنگوں اور ان کےفن کی رعنائیوں کوپینٹ کرپایاہوں نہ ہی یہ اور ان کاکلام دونوں جس تحسین و آفرین کے لائق ہیں ، میں اپنی کم علمی کے باعث ان سے انصاف کرسکاہوں۔
——
منتخب کلام
——
بچپن کتنا پیارا تھا جب دل کو یقیں آ جاتا تھا
مرتے ہیں تو بن جاتے ہیں آسمان کے تارے لوگ
——
آنے والے کل کی خاطر ہر ہر پل قربان کیا
حال کو دفنا دیتے ہیں ہم جینے کی تیاری میں
——
حقیقتیں تو مرے روز و شب کی ساتھی ہیں
میں روز و شب کی حقیقت بدلنا چاہتی ہوں
——
پھیلتے ہوئے شہرو اپنی وحشتیں روکو
میرے گھر کے آنگن پر آسمان رہنے دو
——
داستانِ زندگی لکھتے مگر رہنے دیا
اس کے ہر کردار کو بس معتبر رہنے دیا
کوئی منزل کوئی مفروضہ نہ تھا پیش ِنظر
زیرِ پا اک رہگزر تھی رہ گزر رہنے دیا
دل کے ہر موسم نے بخشی دولتِ احساس و درد
صرف اس سرمائے کو زادِ سفر رہنے دیا
ساتھ اک خوش باش لہجہ محفلوں میں لے کے آئے
دل کی ویرانی کو تنہا اپنے گھر رہنے دیا
شور کرتی بھاگتی دنیا میں شامل بھی رہے
ایک سر مدھم سا دل کے ساز پر رہنے دیا
وقت کے بہتے ہوئے دریا پہ کشتی ڈال کر
سارے اندیشوں سے خود کو بے خبر رہنے دیا
خود غرض تھوڑا سا ہونا بھی ضروری تھا مگر
تجربوں سے سیکھ کر بھی یہ ہنر رہنے دیا
ساری دنیا کے لئے ہر شب دعائے خیر کی
ذکر اپنی خواہشوں کا مختصر رہنے دیا
کیوں کوئی دیکھے ہمارے دل کی ساری مملکت
اک جھلک دکھلائی ہے اور بیشتر رہنے دیا
کون دامن گیر ہے اکثر یہ کرتا ہے سوال
کر تو سکتیں تھیں بہت کچھ تم مگر رہنے دیا
——
وہی بے چہرہ لوگوں سے بھرے بازار لگتے ہیں
یہ جگ مگ شہر بھی اکثر ہمیں بیمارگتے ہیں
کبھی خوابوں کے نقشوں پر محل تعمیر کرتے ہیں
کبھی اپنے ارادے ریت کی دیوار لگتے ہیں
اداکاری سی لگتی ہے یہ ساری اپنی
کسی تمثیل میں دیکھا ہوا کردار لگتے ہیں
نہ ان سے جیت سکتے ہیں نہ خود سےہار مانی ہے
ہم اپنے آپ سے ہی بر سر پیکار لگتے ہیں
فقط شہرت کی خاطر نظم لکھیں شعر چھپوائیں
یہ سارے سلسلے سچ پوچھئیے بیکار لگتے ہیں
وضعداری کی خوشبو ہے ابھی تک اس کے لہجے میں کال
کسی گذری ہوئ تہذیب کے آثار لگتے ہی
——
آدھی جاگی آدھی سوئی رات بھی تھی گہنائی سی
انکھ کھلی تو در پہ کھڑی تھی صبح بھی کچھ کمھلاِئی سی
دن پر پیٹھ پہ ڈھویا سورج چہرے پر تھی گرد جمی
ساتھ میں دفتر سے گھر لوٹی شام بھی کچھ اکتائی سی
اندیشوں کی انگلی تھامے سال گذرتے رہتے ہیں
کبھی کبھی لگنے لگتی ہے اپنی عمر پرائی سی
شاہ بلوط چنار صنوبر انسانوں کی نذر ہوئے
گود میں بربت کے لگتی ہیں جھلیں بھی گھبرائی سی
لوٹ کے جانا ناممکن ہے آگے منظر دھندلے ہیں
بڑھتے قدموں میں حائل ہے خوف کی گہری کھائی سی
سوکھے سوکھے جمنا تٹ پر پیلا ہوتا تاج محل
صبح بنارس دھندلی دھندلی گنگا جی گدلائی سی
——
نجد کی ایک رات
رات تاریک تھی اک کالے سمندر کی طرح
اجنبی دیس تھا تنہائی تھا
جگمگاتے ہوئے بازاروں کی بے کیف فضا
اور بوجھل سا کئے دیتی تھی جسم و جاں ک
شہر کی حد سے پرے
دور تک پھیلے ہوئے ریت کی سفاکی تھی
آسمان دھول میں لپٹا ہوا تا حد ِ نظر
کوئی سایہ نہ سراب
کار میں بجتا ہوا گیت بھی الفاظ کی تکرار تھا
بے روح تھی لے
پھر اچانک مجھے مانوس سے اک لمس نے بیدار کیا
تھپکیاں دے کے مرے شانے پر
پیار سے سرگوشی کی
میں ترے ساتھ یہاں تک آیا
میں ابھی چوم کے آیا ہوں تری خاکِ وطن
تیری گلیاں، ترے مانوس درو بام، تیرا گھر آنگن
تیرے ماں باپ کے آزردہ سے مشفق چہرے
منتظر آنکھوں کی خاموشی کو چوم آیا ہوں
تیرے آنگن کی چمیلی کی دعا لایا ہوں
——
یاد ہے ، یاد ہے
کوئی کہتا ہی رہا
وہ ستمبر کی خنک رات تھی، میں تھا ، تم تھیں
ریڈیو پر کوئی بجتی ہوئی اسپینش دھن
دور میپل کے گھنے جنگل میں
ہم کو مدہوش کئے دیتی تھی
یا د ہے
تجھ کو لڑکپن میں کبھی
آم کے بور کی بیلے کی چمیلی کی مہک ساتھ لئے
کچے آنگن پہ جھکے نیم کی شاخوں میں ہو ا
بہتی تھی
اور ہم دونوں بہت دیر تلک جاگتے تھے
راز کی باتیں کیا کرتے تھے
کوئی کہتا ہی رہا…..یاد کرو ۔۔۔۔ یاد کرو
.
یپ سے دیپ جلے یادوں کے
اور کچھ ایسا ہوا
یک بہ یک چلنے لگی بادِ صبا نجد کے صحراؤں میں
اور اک نور کادریا سا نظر آنے لگا صحر ا میں
کار کے بنددریچے سے اتر آیا مری گود میں چاند
——
انھیں مجھ سے شکایت ہے کہ میں ماضی میں جیتی ہوں
مرے اشعار میں آسیب ہیں گزرے زمانوں کے
وہ کہتے ہیں کہ یادیں سائے کے مانند میرے ساتھ رہتی ہیں
یہ سچ ہے اس سے کب انکار ہے مجھ کو
میں اکثر جاگتے دن میں بھی آنکھیں موند لیتی ہوں
کوئ صورت۔ کوئ خوشبو ۔کوئ آواز ۔کوئ ذائقہ یا لمس جب جادو جگاتا ہے
ٹو ” منیا تور” تصویریں اچانک بولنے لگتی ہیں ناٹک منچ سجتا ہے
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
کسی ٹوٹے ہوئے صندوق میں رکھے ہوئے بوسیدہ مخطوطے سے کوئ داستاں تمثیل بن جآتی ہے
جی اٹھتے ہیں سب کردار ماضی کے
سپاہی ۔بادشاہ۔خلعت
نوادر ۔رقص و موسیقی
کسی کے پاوں میں پائل ۔دھنک آنچل ۔کسی بارہ دری میں راگ دیپک کا
کدم کے پیڑ پر بیٹھی ہوئ چڑیاں اچانک جاگ جاتی ہیں
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے ۔
کسی گمنام قصبے میں کوئ ٹوٹی ہوئ محراب ۔خستہ حال ڈیوڑھی کی جھلک
معدوم کردیتی ہے
ہوٹل ۔چائے خانے ۔بس کے اڈے ۔ڈھیر کوڑے کے
کئ صدیاں گذر جاتی ہیں سر سے
کوئ گم گشتہ شہر رفتگاں بیدار ہوتا ہے
اسی منظر کا حصہ بن کے میں تصویر ہو جاتی ہوں کھو جاتی ہوں ماضی میں
میں اکثر آبنائے وقت پر کاغذ کہ ناو ڈال دیتی ہوں
تو پانی اپنا رستہ موڑ دیتا ہے
میں جب چاہوں سلونی ۔سانولی نٹ کھٹ مدھر یادیں اْٹھا لاوں لڑکپن کے گھروندوں سے
میں جب چاہوں
تو کالی کوٹھری میں قید رنجیدہ ،پشیماں ،_زخم خوردہ ساعتوں بیتے دنوں کو پیار سے چھو کر
دلاسہ دوں تھپک کر لوریاں دوں ،
خوب روؤں ،خوب روؤں،شانت ہو جاؤں
یہ ماضی میرا ماضی ہے فقط میرے تصرف میں ہے ۔میرا ورثہ ہے
نہ میرا حال پر بس ہے
اور آنے والا کل بھی کس نے دیکھا ہے
——
شہر جاں کے موسم
——
مرے دل کے سارے موسم
مرے شہرِجاں کے موسم
ترے نام کردئیے ہیں
کوئ آتشیں بگولہ
کوئ مدھ بھری پون ہے
کوئ چاند کا ہنڈولہ
کوئ بے خودی کا آنچل
کہیں آنسووں کی برکھا
کبھی تیز و تند آندھی
کبھی زرد دوپہر ساوہ سکوت ِدل کہ جس میں
نہ خوشی نہ کوئ غم ہو
کبھی خواب سے مناظر جو ہوا میں تیرتے ہوں
کبھی راگنی سی شامیں
کبھی گنگناتی صبحیں
کبھی درد کے سمندر سی اتھاہ کالی راتیں
یہ بدلتے دل کے موسم
ترے نام کر دئیے ہیں
کوئ بدگمان بادل
کوئ بے رخی کا موسم
کبھی آ کے ٹھیرجائے
مرا اعتبار کرنا
مجھے پھر بھی پیارکرنا
——
ہار سنگھار
تم نے دیکھے ہیں کبھی ہارسنگھار
وہ دل آویز سے معصوم سے دو رنگے پھول
رات کو شاخ پہ کھلتے تھے ستاروں کی طرح
وہ بھلا دن کی تمازت کے ستم کیوں سہتے
اس لئے آخرِ شب اپنے ہی حسن سے بے خود ہوکر
اوس سے بھیگے ہوئے فرش پہ کس پیار سے بچھ جاتے تھے
جیسے کل رات یہاں
زعفران رنگ کی چادر پہ بکھیرے ہوں کسی نے موتی
اور ہر روز سویرے کوئی بچی آکر
فرش گل پر بہت آہستہ سے چلتی تھی
خیالوں میں پہنچ جاتی تھی
اس پرستان میں کہ جس کی پریاں
رات کو فرش پہ یہ پھول بچھا جاتی تھیں
یاد گلیوں سے گذرتی ہوں تو بچپن کے کسی موڑ پہ مل جاتے ہیں
وہی معصوم، دل آویز، سبک ہار سنگھار
جانتی ہوں میں وہاں
اب مرے صحن کی دیوار کے اس پار نہیں کوئی درخت
اب وہاں ایک عمارت ہے بہت اونچی سی
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ