اردوئے معلیٰ

Search

آج نامور شاعر سید فخر الدین  بلے (علیگ) کا یوم وفات ہے

سید فخر الدین  بلے (علیگ)(پیدائش: 6 اپریل 1930ء – وفات: 28 جنوری 2004ء)
——
سید فخر الدین بلے 6 اپریل 1930ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔
نوٹ : تاریخِ پیدائش جو کہ سرکاری دستاویزات پہ ہے وہ 15 دسمبر ہے جب کہ اصل تاریخِ پیدائش 6 اپریل ہے ۔
انہوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ایم ایس سی کی۔
فخر الدین  بلے نے تحریک پاکستان میں بھی بھرپور حصہ لیا۔
علی گڑھ میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے جوائنٹ سیکرٹری کی حیثیت سے کام کیا۔ فخر الدین بلے اطلاعات ، تعلقات عامہ ، سیاحت ،آرٹس کونسل ،سوشل ویلفیئر ، وزارت مذہبی امور اور سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ ادیبوں ،شاعروں اور دانشوروں کی سرگرمیوں کے لئے قافلہ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس کے پڑاؤ لاہور ،ملتان اور بہاولپور میں ہوتے رہے ۔انہوں نے مختلف سرکاری اور غیر سرکاری جرائد کی ادارت کے فرائض بھی انجام دیئے جن میں ماہنامہ جھلک، روزنامہ نوروز کراچی ، بہاولپور ریویو، ماہنامہ اوقاف، ہم وطن ،یاران وطن، نوائے بلدیات ،لاہورافیئر ، 15روزہ مسلم لیگ نیوز اورہمارا ملتان قابل ذکرہیں ۔
وہ 28جنوری 2004ءکو دل کا دورہ پڑنے سے ملتان میں انتقال کر گئے
——
سید فخر الدین بلے کا سوانحی خاکہ
——
میں ایک ایسی شخصیت کا سوانحی خاکہ ترتیب دے رہا ہوں ،جس کے ساتھ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد پر محبت کا تعلق قائم ہوا ۔یہ رفاقت نصف صدی کا قصہ ہے، دوچار برس کی بات نہیں۔ وہ ایک شاعر، ادیب، صوفی، دانشور، تخلیق کار، مقرر، صحافی، مولف، ماہرِ تعلقاتِ عامہ ،محقق اور اسکالر کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے تھے اور دنیائے علم و ادب میں یہی حوالے آج بھی ان کی پہچان ہیں۔ ساری زندگی خود چین سے بیٹھے نہ دوسروں کو چین سے بیٹھنے دیا ۔بزم آرائی ان کا مشغلہ بھی رہا اور شوق بھی ۔قافلے کے پڑاو کے شرکاء بھی یقیناً میری تائید کریں گے۔ اور وہ تمام ارباب ِ ادب بھی جو اُن کی ادبی اور ثقافتی ہنگامہ خیزیوں میں شریک رہے ہیں۔ وہ اپنی ذات میں کائنات اور ایک اچھے انسان تو تھے ہی، ایک مکمل داستان بھی ہیں ۔انہوں نے بڑی بھرپور زندگی گزاری ۔اب ہم میں نہیں لیکن آج بھی اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ مولوی عبدالحق ،فراق گورکھپوری، ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد، آل ِ احمد سرور، جوش ملیح آبادی، ڈاکٹر وزیرآغا، ڈاکٹر خواجہ زکریا، اشفاق احمد، این میری شمل، پیر حسام الدین راشدی، فیض احمد فیض، انتظار حسین، ڈاکٹر سید حامد سابق وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ،خواجہ نصیرالدین نصیر آف گولڑہ شریف، علامہ سید نصیرالاجتہادی، میرزاادیب، پریشان خٹک، علامہ سید احمد سعید کاظمی ، ڈاکٹر اسلم انصاری، رئیس امروہوی، ڈاکٹر عنوان چشتی، احمد ندیم قاسمی، اورجون ایلیا سمیت کس کس کا نام لوں؟ اور کس کس کو چھوڑ دوں ؟
——
یہ بھی پڑھیں : چراغ ِ عشق جلا ہے ہمارے سینے میں
——
نامور ارباب ِ ادب اس شخصیت کا کام اور کلام دیکھ کر اپنے اپنے انداز میں بَلّے بَلّے کہتے دکھائی دئیے۔ اور ان کی سوچ، شخصیت، خدمات اور فن کے مخفی گوشے اجاگر کئے۔ کل کو اگر اس حوالے سے کوئی تحقیقی کام ہوتا ہے تو ارباب ِ علم و دانش کے یہی ستائشی کلمات اس کی بنیاد بنیں گے۔
——
نام و نسب
——
نام: سید فخرالدین بَلّے
مکمل نام: سید فخرالدین محمد بَلّے
قلمی نام: سید فخرالدین بَلّے
تخلّص اور عرفیت ؛ بَلّے
ازل سے عالمِ موجود تک سفر کر کے
تھکے تو جسم کے حجرے میں اعتکاف کیا
سید فخرالدین بَلّے بوقتِ صبح ِ صادق عالم ِ وجود میں آئے۔
تاریخ ِ ولادت :15 دسمبر 1930ء
یہ تاریخ ِ ولادت سرکاری دستاویزات کے مطابق ہے۔
اصل تاریخ ولادت 6 اپریل 1930 ہے۔
دن : اتوار
مقام ِ ولادت: ہاپوڑ (میرٹھ ) متحدہ ہندوستان
عمر :73سال،9ماہ،22دن
یہ مدت عیسوی ماہ و سال کے اعتبار سے ہے۔
ہجری کیلنڈر کے اعتبار سے عمر76سال ،ایک ماہ بنتی ہے۔
——
بَلّے کی وجہ ِ تسمیہ
——
سلطان الہند ،غریب نواز حضرت خواجہ معین الدین چشتی سنجری اجمیری ؒ نے اپنے صاحبزادے کا نام فخر الدین رکھا تھا اور انہیں پیار سے ”بَلّے“ کہتے تھے۔ اسی
مناسبت سے آپ کے والد بزرگوارسید غلام ِ معین الدین چشتی نے اپنے بیٹے کا نام فخر الدین رکھا اور انہیں پیار سے ہمیشہ ”بَلّے“ کہہ کر پکارا۔ یوں سیّد فخر الدین ۔۔ ”بَلّے“ مشہور ہو گئے۔
والد ِ بزرگوار کانام : سید غلام ِمعین الدین چشتی
والدہ ماجدہ کا نام: امۃ اللطیف بیگم
دادا حضور:سید غلامِ محی الدین چشتی
دین: اسلام
مسلک : چشتیہ سلسلہء عالیہ
شہریت: پاکستانی
پہچان: اسلامی جمہوریہ پاکستان
خاندانی پس منظر
خواجہ ء خواجگان حضرت معین الدین چشتی سنجری اجمیری ؒ سے ہوتا ہوا آپ کا سلسلہ نسب 43 واسطوں سے مولائے کائنات حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے۔
——
اجداد کی سیاسی خدمات
——
سید فخرالدین بلے کے اسلاف نے قربانیوں کی کئی داستانیں رقم کیں ۔کوئی دور ایسا نظر نہیں آتا کہ وہ غیر متحرک رہے ہوں۔ سماجی سطح پر بھی اہم خدمات انجام دیں۔ ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا کئے بغیر رفاہی کام کئے اور محروم طبقات کے دکھوں کا مداوا کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ آپ کے والد بزرگوار سید غلامِ معین الدین چشتی 1942کے انتخابات میں شہید ِملت نواب زادہ لیاقت علی خان کی انتخابی مہم کے نگران تھے۔ جد ِ امجد سید غلام محی الدین چشتی نے 1906 میں ڈھاکہ میں ہونے والے مسلم اکابر کے تاریخ ساز اجتماع میں صوبہ آگرہ کے مندوب کی حیثیت سے شرکت کی۔ اسی اجتماع میں مسلم لیگ کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ آپ کے پردادا میر قادر علی نے بھی مسلم کاز کے لئے اہم خدمات انجام دیں۔ وہ سرسید احمد خان کی قائم کردہ آل انڈیا مسلم ڈیفنس کمیٹی کے ممبر تھے۔ جو 1893میں بنی تھی۔ میر قادر علی کے والد محترم میر نظام علی نے 1857 کی جنگ آزادی میں میرٹھ کے محاذ پر جامِ شہادت نوش کیا۔
——
بچپن میں بزرگوں کی صحبتیں
——
آپ کو بچپن میں ابوالکلام آزاد، ڈاکٹر ذاکر حسین، مولاناحسرت موہانی، مولوی عبدالحق، رشید احمد صدیقی، جگر مراد آبادی، تلوک چند محروم، علامہ نیاز فتح پوری، سیماب اکبرآبادی، سر شاہ نواز بھٹو، اور مولانا عبدالسلام نیازی سمیت نامور قد آور شخصیات کی صحبتوں میں بیٹھنے اور ان سے فیض پانے کے مواقع ملے۔
——
تحریک پاکستان کا ایک چائلڈ سپیکر
——
1944-47 تحریک ِ پاکستان کے دوران انہوں نے سیاسی اجتماعات میں چائلڈ اسپیکر کی حیثیت سے حصہ لیا۔ جن میں کے دوران قائد اعظم محمد علی جناح ، خان لیاقت علی خان، نواب اسماعیل خان، چوہدری خلیق الزماں، سردار عبدالرب نشتر‘ آئی آئی چندریگر اور حسین شہید سہروردی نے خطاب کیا۔
——
تحصیل ِ علم اور تعلیمی ادارے
——
میٹرک:الہ آباد تعلیمی بورڈ الہ آباد
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘ علی گڑھ
ایف ۔ایس ۔ سی ۔
بی ۔ ایس ۔ سی
اور ایم ایس سی (جیالوجی)
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘ علی گڑھ سے کیا
ادیب ِ کامل
ادیب ِ فاضل
جامعہ الاردو‘ علی گڑھ سے کیا
شعری سفر کاآغاز1944 میں ہوا۔
——
پہلا شعر
——
پوچھتا ہے جب بھی کوئی مجھ سے خاموشی کی بات
آسماں کو دیکھ کر خاموش ہو جاتا ہوں میں
——
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہم نصابی سرگرمیاں
——
سیدفخرالدین بَلّے نے ہم نصابی سرگرمیوں میں گرم جوشی سے بھر پور حصہ لیا۔ بیت بازی کے مقابلوں ،مباحثوں ،مشاعروں اور تقریری مقابلوں میں جوہر دکھائے۔ سینئر اساتذہ سے بھی خوب داد سمیٹی ۔ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے جوائنٹ سیکریٹری منتخب ہوئے۔ یونیورسٹی کے مجلے دی یونین کے مدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : جلوۂ ماہ ِ نو ؟ نہیں ؟ سبزہ و گل ؟ نہیں نہیں
——
اپنا مجلہ ماہنامہ جھلک ،علی گڑھ جاری کیا۔ حلقہ یاراں بڑا وسیع رہا۔ اساتذہ اور تلامذہ میں یکساں مقبول رہے۔
——
ترک ِ سکونت کافیصلہ
——
اپنی خوبصورت یادوں کو سمیٹ کر بھارت کو ہمیشہ کیلئے خیرباد کہنے کے لئے پرتول لئے۔
——
ہجرت
——
لاہور میں پہلا پڑاؤ ڈالا۔
کراچی میں کچھ عرصہ قیام کیا اور روزگار کے امکانات کا جائزہ لینے کے بعد بالآخر ستلج کنارے پڑاو ڈالنے کا فیصلہ کر لیا۔
ڈومیسائل: بہاول پور
بہاول پور ہی سے سرکاری کیرئیر کا آغازکیا۔
——
سراپا
——
علمی اعتبار سے قد آور لیکن ظاہری اعتبار سے میانہ قامت۔
سر بڑا تھا۔ جیسے کسی سردار کا ہوتا ہے۔
گھنگھریالے بال۔ درمیان میں مانگ ۔یہ اس وقت کی بات ہے، جب آتش جوان تھا۔ ڈھلتی عمر کے ساتھ انہوں نے مانگ نکالنا بند کردی تھی ،البتہ کنگھا کرتے تو تھوڑی دیر بعد خود بخود مانگ نکل آتی تھی۔
بڑی بڑی دلکش آنکھیں ۔
آنکھوں میں سرخ ڈورے۔ جن سے سفیدی اور سیاہی مزید نمایاں ہو گئی تھی۔
کشادہ پیشانی ۔پیشانی پر سوچوں کی تین چار محرابیں ۔
وہ گہری سوچ میں ہوتے تو یہ محرابیں اور گہری ہو جاتیں۔
خوبصورت نقش و نگار کے مالک تھے ۔
کلین شیوڈ۔ بڑھے ہوئے شیو کے ساتھ کسی محفل میں کبھی نظر نہیں آئے۔
سینے پر بال اور بالوں کی ایک لکیر ناف تک موجود تھی۔
نسبتاً لانبی کلائیاں ۔گداز ہتھیلیاں ۔
ہاتھ ملاتے تو لگتا کہ ان ہاتھوں نے کبھی مشقت نہیں کی۔ حالانکہ ساری زندگی مشق ِ سخن جاری رکھی۔
——
شخصیت
——
باوقار اور باغ و بہار شخصیت کا نام سید فخرالدین محمد بلے ہے۔ خوش لباسی ان کی خوش مزاجی کا آئینہ تھی۔ طبیعت میں نفاست کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی محسوس ہوتی ۔ جو ملے اسے اپنا گرویدہ بنا لیتے ۔ گفتگو میں طنز نہیں ،البتہ مزاح ضرور جھلکتا تھا۔ دوسروں کو آگے بڑھتا دیکھ کر جی اٹھتے ۔ دل میں کسی کے لئے میل نہیں۔ اعلیٰ ظرف ،دریا دل اور کشادہ نظر تھے۔ تواضع ان کا خاصا اور مروت و رواداری ان کا شعار رہی۔
——
لباس
——
خوش لباسی بھی عالم ِ نوجوانی میں ان کی مقبولیت کا سبب بنی۔
تھری پیس سوٹ، اور شوخ رنگ کی ٹائی۔ اس پر میچنگ شوز۔ کبھی کبھار جواہر کٹ واسکٹ ،کرتہ شلوار، ۔
شیروانی کے کالر والی بوشرٹ اور پینٹ۔
شیروانی ۔کرتہ شلوار کے ساتھ کھسہ، میچنگ پینٹ شرٹ کے ساتھ میچنگ شوز۔
زندگی کے آخری دور میں صرف سفید قمیض شلوار اور سفید شوزکو ترجیح دی۔
سرد موسم میں کالی،سفید یا سلیٹی رنگ کی چادر اوڑھنا پسند کرتے تھے۔ ساتویں محرم الحرام کو سبز کرتا اور سفید شلوار اور دسویں محرم الحرام کو کالا کرتا اور سفید شلوار اُن کاپہناوا ہوتا۔ یہ روایت عمر بھر برقرار رہی ۔
چلن: فقیرانہ
انداز : شاہانہ
فکر:صوفیانہ
شیوہ:انسانیت سے محبت اور احترام ِ ِآدمیت
——
فطرت
——
مسکرانا۔ برائی کا بدلہ بھلائی سے دینا۔ پریشاں حال لوگوں کی دلجوئی کرنا، بائیں ہاتھ کو خبر دئیے بغیر دائیں ہاتھ سے ضرورت مندوں کی مدد کرنا۔ مثبت پہلووں پر ہمیشہ نظر رکھا۔
——
شوق
——
کتب بینی ،بزم آرائی اورشب بیداری
——
شعبے
——
علم و ادب، فنون ، ثقافت، تصوف، آثار ِقدیمہ، مذاہبِ ِعالم، تحقیق، سیاحت، معدنی وسائل، صحافت، تعلقات عامہ
——
محکمے
——
اطلاعات، تعلقات عامہ، سیاحت، پروٹوکول، آرٹس کونسل، سوشل ویلفئیر، بلدیات، وزارت مذہبی امور، وزارت ِ اقلیتی امور، اور وزارت سمندر پار پاکستانیز
——
غیر ملکی سرکاری دورے
——
ایران، چین ،سری لنکا، افغانستان ،بنگلہ دیش اور بھارت۔
بھارت کا دورہ ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ پاکستان کے ساتھ کیا۔ واپسی پر بھٹو صاحب نے ان کی کارکردگی کو بے مثال قرار دیا اور جوریمارکس دئیے، وہ بلاشبہ ایسے ہیں ،جن پر فخر ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس کی تفصیل میری یادداشتوں میں محفوظ ہے۔
——
کھیل اور مشاغل
——
مختلف ادوار میں مختلف میدانوں میں نظر آئے۔ کرکٹ، بیڈمنٹن، رِنگ، ٹیبل ٹینس، اسکریبل، کیرم، لڈو، شطرنج، اور بریج ۔
——
تالیفات و مطبوعات
——
جن شعبوں‘ اداروں اور محکموں سے وابستہ رہے ۔ان سے متعلق (150) سے زیادہ مطبوعات تالیف و تدوین کیں اور ان کی اشاعت کا اہتمام کیا۔ ان میں کتابیں‘ کتابچے ، سووینئیرز، اور بروشرز شامل ہیں۔ یہ تالیفات انگریزی، اردو، ہندی اور فارسی زبانوں میں مرتب کی گئیں۔ ان میں سید فخر الدین بلے کی علمی وسعت، فکر کی رفعت ، پاکستانیت، پاکستانیات سے متعلق علمیت، زبان و بیان پر قدرت اور وطن ِعزیز سے محبت نظر آتی ہے۔
——
دوتحقیقی کتابیں
——
ولایت پناہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم
آپ نے باب العلم حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ و تعالیٰ وجہہ ا لکریم کی سیرت و شخصیت پر ایک تحقیقی کتاب ولایت پناہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم لکھی۔
فنون ِ لطیفہ اور اسلام
مندرجہ بالاعنوان کے تحت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان کی تحقیقی کتاب بڑاعلمی سرمایہ ہے ،جو دل کشا بھی ہے اور چشم کشا بھی۔
——
سات صدیوں بعد،دو تخلیقی کارنامے
——
امیر خسروؒ کے بعدسیّد فخر الدین بلے نے قول ترانہ اور "نیا رنگ” تخلیق کیا۔ جس کی دُھنیں ریڈیو پاکستان ملتان نے تیار کیں۔ ان دونوں تخلیقات کو جید علما، صوفیا اور مشائخ نے7 صدیوں بعد اہم تاریخی اور تاریخ ساز کارنامہ قرار دیا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : خوشبوئے گُل نظر پڑے ، رقص ِ صبا دکھائی دے
——
محسنِ فن ….”مین آف دی سٹیج”۔ اسٹیج کیلئے خدمات پر دو خطابات سے نوازا گیا
فنون و ثقافت کے فروغ اور 1982ءمیں ملتان میں 25 روزہ جشنِ تمثیل کرانے پر ثقافتی تنظیموں اور اسٹیج فنکاروں کی طرف سے آپ کو ”محسنِ فن“ کا خطاب دینے کے ساتھ ساتھ مین آف دی اسٹیج قرار دیا گیا۔
——
سکونت
——
سرکاری ملازمت نے خانہ بدوش بنا کر رکھ دیا ۔کراچی، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، سرگودھا، ملتان، کوئٹہ ، قلات، خضدار اور بہاولپور میں دورانِ ملازمت قیام رہا۔ ان شہروں میں آپ کا وسیع حلقہء یاراں موجود ہے۔
——
ریٹائرمنٹ
——
ڈائریکٹر تعلقاتِ عامہ ،حکومت پنجاب ۔گریڈ 20
دسمبر۔199015
——
روزگار بعد از ریٹائرمنٹ
——
فری لانس (جرنلسٹ )‘ میڈیا کنسلٹنٹ۔ پبلک ریلیشنز پریکٹیشنر
——
جادہ ءصحافت پر انمٹ نقوش
——
سید فخر الدین بلے نے دنیائے صحافت میں بھی انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ۔اخبارات و جرائد میں کالم بھی لکھے۔ سیاسی اور سماجی مسائل و معاملات پر ان کے قطعات بھی توجہ کا مرکز بنے۔ پاکستان کے صدور، وزرائے اعظم، صوبائی گورنروں اور وزرائے اعلیٰ کے لئے جتنی تقریریں لکھیں ،انہیں شمار میں نہیں لایا جا سکتا۔ دوست احباب ان کے پاس آ کر مضامین لکھوایا کرتے تھے اور پھر انہیں اپنے نام سے چھپوا کر خوش ہوتے تھے۔ ایسا کبھی کبھار نہیں اکثر ہوتا تھا۔ ان کی عنایات کی بنیاد پر بہت سے لوگ صاحب ِ کتاب بنے۔
سید فخر الدین بلے نے صحافتی دنیا میں کچھ جرائد کے بانی مدیرِ اعلیٰ یا مدیر کی حیثیت سے قابل ِ قدر کام کیا۔ سرکاری جرائد پر بھی ان کی شخصیت کے دستخط ثبت نظرآتے ہیں۔ جو جرائد آپ کے زیر ادارت شائع ہوئے، ان کی تفصیل یہ ہے۔
ایڈیٹر پندرہ روزہ دی یونین علی گڑھ
بانی ایڈیٹر ماہنامہ جھلک علی گڑھ
جوائنٹ ایڈیٹر روزنامہ نو روز، کراچی
جوائنٹ ایڈیٹر بہاولپور ریویو‘ بہاولپور
ایڈیٹر ماہنامہ لاہور افیئرز، لاہور
ایڈیٹر ہفت روزہ استقلال ،لاہور
ایڈیٹر ماہنامہ ویسٹ پاکستان، لاہور
بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ فلاح لاہور
بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ اوقاف اسلام آباد
بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ ہم وطن، اسلام آباد
بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ یارانِ وطن، اسلام آباد
بانی چیف ایڈیٹر ہفت روزہ آوازِ جرس‘ لاہور
بانی چیف ایڈیٹر پندرہ روزہ مسلم لیگ نیوز ، لاہور
بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ نوائے بلدیات لاہور
بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ ہمارا ملتان ، ملتان
ادبی تنظیمیں اور ادارے
——
ادبی تنظیم قافلہ کے بانی
——
تخلیق کاروں، فنکاروں، شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کی تنظیم ”قافلہ“ بنائی۔ جس کے ”پڑاؤ“ لاہور اور ملتان میں سیّد فخر الدین بلے کی اقامت گاہ پر بڑے تسلسل اور تواتر کے ساتھ ہوئے۔ ان کی خواہش پر ہی ”قافلے“ کے پڑاؤ بہاولپور میں نامور علمی ادبی شخصیت سید تابش الوری کی رہائش گاہ پر ہوتے ہیں۔
——
پنجند اکادمی
——
سرائیکی وسیب کی تہذیب و ثقافت کے تحفظ، فنکاروں کی حوصلہ افزائی، مختلف شعبوں میں ”جوہرِ قابل“ کی دریافت اور پذیرائی کے لئے آپ نے نئی راہیں تلاش کیں۔پنجند اکادمی بنائی اور اس کے قیام پر جو کتابچہ شائع کیا، اس کی ایک ایک سطر میںفخر الدین بلے کے خواب دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے خوابوں میں اب بھی حقیقت کے رنگ بھرے جاسکتے ہیں۔
——
معین اکادمی
——
اپنے بزرگوں کے نام پر معین اکادمی کی بنیاد رکھی۔ اس اشاعتی ادارے کے تحت متعدد ادیبوں کی کتابیں شائع کیں۔
——
دل کی بیماری سے دل لگی
——
اگست 1980 میں انہیں دل کا دورہ پڑا۔ ڈاکٹروں نے آرام کے ساتھ سگریٹ نوشی ترک کرنے کا مشورہ دیا لیکن انہوں نے آرام کیا نہ سگریٹ نوشی ترک کی۔ دل کی بیماری کے ساتھ ایسی دل لگی شاید ہی کسی نے کی ہو۔ دل کی اس بیماری کے ساتھ وہ چوبیس برس تک زندہ رہے۔ جب دورہ پڑتا تو دو چار دن بچوں کی دل جوئی کے لئے مصروفیات ضرور ترک کر دیتے اور پھر ان کی دن رات جاری رہنے والی سرگرمیاں زیادہ زور شور کے ساتھ نظر آتیں۔ معالجین کا کہنا تھا ان کا صرف ایک چوتھائی دل کام کر رہا ہے ۔آخری ایام میں اٹھارہ، اٹھارہ گھنٹے آکسیجن کی نالی ناک سے لگی رہتی لیکن یہ بیماری بھی انہیں غیر فعال کرنے میں ناکام رہی۔ ایسی قوت ِ ارادی اور خود اعتمادی کم کم ہی دکھائی دیتی ہے۔ جنوری2004 کے دوسرے ہفتے میں انہیں نشتر اسپتال داخل کرا دیا گیا۔ شدید علالت میں بھی کلمہء شکر زبان پر رہا۔ ہرحال میں شکر بجا لانا ان کے مزاج کا حصہ تھا۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر قتیل شفائی کا یوم وفات
——
وفات:آئی ۔سی ۔یو،نشتراسپتال ،ملتان
تاریخ ِ وفات:
جنوری 2004 28
6ذوالحج ۔بدھ ؛رات 8 بج کر 5 منٹ پرخالق حقیقی سے جاملے۔
بہاولپورمیں تدفین : جمعرات 29جنوری 2004
آخری ”پڑاؤ“
قبرستان نور شاہ بخاری ‘ بہاولپور
——
جیتے جی ہے اس مٹی کا قرض چکانا مشکل
بڑھ جائے گا قبر میں جاکے اِس مٹی کا قرض
——
سید فخر الدین بلے کی شخصیت، فن ، خدمات اور ان کے افکار و خیالات سے متعلق مشاہیرِادب نے بہت کچھ لکھا۔ اس حوالے سے کئی کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں۔چند ایک یہ ہیں
———-
سید فخر الدین بلے۔ ایک آدرش ۔ ایک انجمن
[اولڈ بوائز مسلم یونیورسٹی ایسوسی ایشن نے یہ کتاب مدّون کی]
بلے بلے۔ سید فخر الدین بلے
[پاکستان اور بھارت کے نامور ادیبوں اور شاعروں کی نظر میں ]
امیر خسرو کے بعد سید فخر الدین بلے کا قول ترانہ۔ معرفت کا انمول خزانہ۔
تحقیق: علامہ مولانا سید کلب ِ حسن نونہروی، قم۔ایران
سید فخر الدین بلے کی بیاض کے ساتھ سات دن
انتخاب ِ کلام: مرتبہ : شبنم رومانی
سید فخر الدین بلے۔ ایک داستان ۔ ایک دبستان۔
تالیف: سید تابش الوری
سید فخرالدین  بلے کی ادبی ہنگامہ خیزیاں زندگی بھر جاری رہیں۔ اب وہ دنیا میں نہیں رہے لیکن ایوان ِ ادب میں ان کی خدمات کی بازگشت اب بھی سنائی دیتی ہے۔
——
وفات
——
وہ 28جنوری 2004ءکو دل کا دورہ پڑنے سے ملتان میں انتقال کر گئے۔
——
منتخب کلام
——
خود ارادی اور آزادی کی برکت دیکھیے
گھر کے آنگن میں نظر آتے ہیں اب چولہے کئی
چار آنکھیں چاہییں اس کی حفاظت کے لیے
آنے جانے کے لیے جس گھر میں ہوں رستے کئی
——
خلانورد ہیں ایسے بھی جو ستاروں میں
بنانے تیشۂ فرہاد سے سرنگ چلے
——
میرے گھر میں بھی کہکشاں کی طرح
ربط قائم ہے انتشار کے ساتھ
——
نہ آئینے کا بھروسہ نہ اعتبار نظر
جو روبرو ہے مرے کوئی دوسرا ہی نہ ہو
——
یوں لگی مجھ کو خنک تاب سحر کی تنویر
جیسے جبریل نے میرے لئے پر کھولے ہیں
ہے ردا پوشی مری دنیا دکھاوے کے لئے
ورنہ خلوت میں بدلنے کو کئی چولے ہیں
——
انا کا علم ضروری ہے بندگی کے لئے
خود آگہی کی ضرورت ہے بے خودی کے لئے
——
ہے ایک قطرۂ خود نا شناس کی طرح
یہ کائنات مِری ذات کے سمندر میں
——
میں کیا بتاﺅں کہ قلب و نظر پہ کیا گزری
کرن نے قطرۂ شبنم میں جب شگاف کیا
ازل سے عالم ِ موجود تک سفر کر کے
خود اپنے جسم کے حجرے میں اعتکاف کیا
خدا گواہ کہ میں نے خود آگہی کے لئے
سمجھ کے خود کو حرم عمر بھر طواف کیا
——
رہیں گے قصرِ عقائد نہ فلسفوں کے محل
جو میں نے اپنی حقیقت کا انکشاف کیا
——
ہے آب آب موج بپھرنے کے باوجود
دنیا سمٹ رہی ہے بکھرنے کے باوجود
راہِ فنا پہ لوگ سدا گامزن رہے
ہر ہر نفس پہ موت سے ڈرنے کے باوجود
الفاظ و صورت و رنگ و تصور کے روپ میں
زندہ ہیں لوگ آج بھی مرنے کے باوجود
——
ہے پیار کا کھیل مصلحت اور خیالِ سود و زیاں سے بالا
لگا ہی لی ہے جو دل کی بازی، تو جیت کیا اور ہار کیا ہے
——
ہے فلسفوں کی گرد نگاہوں کے سامنے
ایسے میں خاک، سوچ کو رستہ دکھائی دے
دیدہ وروں کے شہر میں ہر ایک پستہ قد
پنجوں کے بل کھڑا ہے، کہ اونچا دکھائی دے
——
یہ بھی پڑھیں : پروفیسر سید وقار عظیم کا یوم پیدائش
——
خدا سے روز ازل کس نے اختلاف کیا
وہ آدمی تو نہ تھا جس نے انحراف کیا
ازل سے عالمِ موجود تک سفر کرکے
خود اپنے جسم کے حجرے میں اعتکاف کیا
خداگواہ ، کہ میں نے خود آگہی کے لئے
سمجھ کے خود کو حرم، عمر بھر طواف کیا
رہیں گے قصرِ عقائد نہ فلسفوں کے محل
جو میں نے اپنی حقیقت کا انکشاف کیا
میں کیا بتاوں کہ قلب و نظر پہ کیا گزری
کرن نے قطرئہ شبنم میں جب شگاف کیا
وہی تو ہوں میں کہ جس کے وجود سے پہلے
خود اپنے رب سے فرشتوں نے اختلاف کیا
——
اتنا بڑھا بشر، کہ ستارے ہیں گردِ راہ
اتنا گھٹا، کہ خاک پہ سایہ سا رہ گیا
ہنگامہ ہائے کارگہِ روز و شب نہ پوچھ
اتنا ہجوم تھا ، کہ میں تنہا سا رہ گیا
——
خوشبو رہی چمن میں نہ وہ رنگ رہ گیا
تربت یہ گل کی، خار کا سرہنگ رہ گیا
ہولب پہ رام رام، بغل میں چھری رہے
جینے کا اس جہاں میں یہی ڈھنگ رہ گیا
ہر سنگ بھاری ہوتا ہے اپنے مقام پر
انساں خلا میں پہنچا تو پاسنگ رہ گیا
گلہائے رنگ رنگ روش در روش ملے
دامن ہی آرزو کا مری تنگ رہ گیا
میں بھی بدل گیا ہوں زمانے کے ساتھ ساتھ
آئینہ آج دیکھا تو خود ، دنگ رہ گیا
——
ہے چُبھن مستقل قرار کے ساتھ
پھول ڈالی پہ جیسے خار کے ساتھ
صبح کا انتظار ہے لیکن
بے یقینی ہے اعتبار کے ساتھ
خواہشِ باغباں ہے یہ شاید
زرد رُت بھی رہے بہار کے ساتھ
میرے گھر میں بھی کہکشاں کی طرح
ربط قائم ہے انتشار کے ساتھ
پیڑ نعمت بدست و سرخم ہیں
ہے تفاخر بھی انکسار کے ساتھ
——
کھلیں گلاب تو آنکھیں کھلیں اچُنگ چلے
پون چلے تو مہک اسکے سنگ سنگ چلے
ہے میرا سوچ سفر فلسفے کے صحرا میں
ہوا کے دوش پہ جیسے کٹی پتنگ چلے
کسی کا ہوکے کوئی کس طرح رہے اپنا
رہِ سلوک پہ جیسے کوئی ملنگ چلے
طویل رات ہے ، بھیگی سحر ہے ، ٹھنڈی شام
بڑے ہوں تھوڑے سے دن تو بسنت رنگ چلے
وہ دور ہوں تو کٹے ساری رات آنکھوں میں
قریب آئیں تو قلب ونظر میں جنگ چلے
چلے ازل سے ابد کے لئے تو رستے ہیں
پڑاءو دنیا میں ڈالا کہ کچھ درنگ چلے
خلا نورد ہیں ایسے بھی جو ستاروں میں
بناکے تیشہ ءفرہاد سے سرنگ چلے
——
ہے آب آب موج بپھرنے کے باوجود
دنیا سمٹ رہی ہے، بکھرنے کے باوجود
راہِ فنا پہ لوگ سدا گامزن رہے
ہر ہر نفس پہ موت سے ڈرنے کے باوجود
اس بحرِ کائنات میں ہر کشتی انا
غرقاب ہو گئی ہے ابھرنے کے باوجود
شاید پڑی ہے رات بھی سارے چمن پہ اوس
بھیگے ہوئے ہیں پھول نکھرنے کے باوجود
زیرِ قدم ہے چاند،ستارے ہیں گردِ راہ
دھرتی پہ آسماںِ سے اترنے کے باوجود
میں اس مقام پر تو نہیں آگیا کہیں
ہوگی نہ صبح رات گزرنے کے باوجود
الفاظ وصوت ورنگ وتصور کے روپ میں
زندہ ہیں لوگ آج بھی مرنے کے باوجود
ابہامِ آگہی سے میں اپنے وجود کا
اقرار کر رہا ہوں ، مکرنے کے باوجود
——
ایک ہی جیسے لگے سُننے میں افسانے کئی
ہو بھی سکتا ہے کہ اس دنیا میں ہوں ہم سے کئی
چار آنکھیں چاہئیں اس کی حفاظت کیلئے
آنے جانے کیلئے جس گھر میں ہوں رستے کئی
آدمی کے پر لگے ہیں جب سے سمٹی ہے زمیں
اب تو جینے کے لئے درکارہیں چولے کئی
ٹھن گئی ہے اس لئے تقدیر اور تدبیر میں
ہاتھ تو ہر اِک کے دو ہیں اور گل دستے کئی
بات قسمت کی نہیں ، دل تھا ہوس نا آشنا
ورنہ ہم کو بھی ملے تھے کام کے بندے کئی
قربتوں سے فاصلوں کی جس سے بیداری ملی
جسم وجاں کے درمیاں آئے نظر پردے کئی
بھیڑ میں ایسے گھرے کہ بڑھ گئیں تنہائیاں
ساتھ ہی لیکن ہوئے آباد، ویرانے کئی
لب پہ ہلکی سی ہنسی اور قلب ڈانواں ڈول ہے
راہ میں کعبے کے پڑتے ہیں صنم خانے کئی
——
اب شبِ غم اگر نہیں نہ سہی
دامنِ برگ تر نہیں نہ سہی
زندہ دارانِ شب کو میری طرح
انتظارِ سحر نہیں نہ سہی
دشت پیما کے آس پاس اگر
کوئی دیوار و در نہیں نہ سہی
عام ہے جستجوئے جہلِ خرد
شہر میں دیدہ ور نہیں نہ سہی
ہر نفس ایک تازیانہ ہے
آہ میں کچھ اثر نہیں نہ سہی
موت ہے مستقل تعاقب میں
زندگی خود نگر نہیں نہ سہی
سر اٹھا کر زمیں پہ چلتا ہوں
سر چھپانے کو گھر نہیں نہ سہی
——
پڑا ہوا ہے بہت سے چہروں پہ مستقل جو غبار کیا ہے
ذرا کبھی آئینوں سے پوچھو، نگاہ کا اعتبار کیا ہے
یہ زندگانی تو یوں لگے ہے، ہوکھیل کٹھ پتلیوں کا جیسے
ہے اور ہاتھوں میں ڈور ہی جب تو پھر مرا اختیار کیا ہے
شکستہ دل ہیں بہت سی کلیاں ،بدن دریدہ ہیں پھول سارے
ہیں خار زاروں میں قید آنکھیں، کہ جانتی ہیں بہار کیا ہے
پلے ہیں جو دل کی دھڑکنوں میں ، لہو ہے جن کی رگوں میں جاری
بھلا انہیں کوئی کیا بتائے، سکون کیا ہے قرار کیا ہے
زمیں کو گھیرے سمندروں اور ہوا کے طبقوں کا رقص پیہم
خلا میں یا رب ! یہ طرفگی ءحصار اندر حصار کیا ہے
وہ دیدہ ور ہے جو آبدیدہ ، مدام ہے جس کی مسکراہٹ
اسی سے پوچھو، کہ بار و کربِ لب تبسم شعار کیا ہے
ہے پیار کا کھیل مصلحت اور خیالِ سود و زباں سے بالا
لگا ہی لی ہے جو دل کی بازی تو جیت کیا اور ہار کیا ہے
——
(کوئٹہ کی برفباری سے متاثر ہو کر )
گردوں سے برستے ہوئے یہ برف کے گالے
تنتے ہوئے ہر سمت ہر اِک چیز پہ جالے
دُھنکی ہوئی روئی کی طرح صاف شگفتہ
شفاف ، سبک ، نازک و خودرفتہ و خستہ
رخشندہ و تابندہ و رقصندہ جوانی
یہ برف کی بارش ہے کہ پریوں کی کہانی
دوشیزگیٔ شام و سحر کے یہ سنبھالے
چھائے ہوئے بکھرے ہوئے ہر سمت اُجالے
چاندی میں نہائے ہوئے یہ کوہ و بیاباں
ہے عام بہ عنوانِ طرب زیست کا ساماں
انوار کا ٹیکہ ہے پہاڑوں کی جبیں پر
غالیچۂ سیمیں ہے بِچھا ہے جو زمیں پر
موتی ہیں کہ دامن میں کوئی رول رہا ہے
جوبن کی ترازو میں سحر تول رہا ہے
ہر برگ و شجر رشکِ تنِ یاسمنی ہے
صحن و درو دیوار کی کیا سِیم تنی ہے
گو عارضی بخشش سہی فطرت کی یہ چھل ہے
ہر ایک مکاں آج یہاں تاج محل ہے
شوخیٔ مناظر میں نظر کھوئی ہوئی ہے
زانوئے شبستاں پہ سحر سوئی ہوئی ہے
چمپا سے چنبیلی سے ہراک زلف گُندھی ہے
ہر ایک سر ِ کوہ پہ دستار بندھی ہے
یا چشمے پہ جیسے کوئی مہناز بنا کر
بیٹھی ہے بصد ناز اداؤں کو چُرا کر
ہے وادیٔ بولان کہ حوروں کا بسیرا
ہر گام پہ حانی نے لگا رکھا ہے ڈیرا
چاندی کا کٹورا ہے سرِ آب پڑا ہے
بِلّور کا ساغر ہے کہ صہبا سے بھرا ہے
ہر ذرے سے جوبن کی کرن پھوٹ رہی ہے
انوار سے ظلمت کی کمر ٹوٹ رہی ہے
ہیں کوثر و تسنیم بھی،ساقی بھی ہے،مے بھی
ہے ساز بھی،مضراب بھی ،آواز بھی ‘لَے بھی
مطلوب بھی موجود ہے ،طالب بھی،طلب بھی
پائل بھی ہے ،جھنکاربھی ،مطرب بھی ،طرب بھی
منظر بھی ہے،منظور بھی، ناظر بھی، نظر بھی
ہے ناز بھی‘ انداز بھی‘ اندازِ دگر بھی
ہیں ارض و سما ، کون و مکاں نور میں غلطاں
بارانِ کرم ہے کہ اترتا ہوا قرآں
ہر منظرِ پُر کیف پہ جنت کا گماں ہے
سڑکوں پہ پڑی برف ہے یا کا ہ کشاں ہے
ہر ذرّہ ہے مہتاب ، ہر اِک ذرّہ ہے خورشید
ہے برف کہ اک جشنِ جہاں تاب کی تمہید
اس برف سے رعنائی و شوخیٔ گل ِ تر
یہ برف ہے پیشانیٔ بولان کا جھومر
یہ برف بلوچوں کی دعاؤں کا ثمر ہے
یہ برف نہیں فصلِ بہاراں کی خبر ہے
اس برف سے مہوش تری تصویر بناؤں
بت ساز بنوں اور صنم دل میں بٹھاؤں
ڈرتا ہوں مگر برف پگھل جائے گی اک دن
انفاس کی حدت سے یہ گل جائے گی اک دن
——
ہنگامِ محشر
(کوئٹہ میں برفباری کی تصویر کا دوسرا رُخ )
ہے برف کے اِ س عکس میں سرشاری و مستی
لیکن ہے اِسی عکس کا اِک دوسرا رخ بھی
تصویر کے اس رُخ میں ہے ژولیدہ جوانی
ہے ہوش رُبا صبر طلب ،جس کی کہانی
گھنگھور گھٹائیں ہیں دھواں دھار دُھندلکا
یَخ بستہ ہواؤں سے ہے اِک حشر سا برپا
آبادیاں مانندِ بیاباں ہیں لَق و دَ ق
آتا بھی ہے ذی روح نظر کوئی تو منہ فق
حرکت ہے نہ ہلچل، نہ حرارت، نہ جنوں ہے
پُر ہَول فضا زیست گرفتارِ فسوں ہے
سنسان گلی کوچے ہیں اجڑے ہوئے بازار
ہیں برف میں مدفون چمن سبزہ و گلزار
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ